Quantcast
Channel: Art – Lal Salaam | لال سلام
Viewing all 24 articles
Browse latest View live

فیض کی وفات کے 30 سال

$
0
0

[تحریر: لال خان]
تیس سال قبل 20 نومبر 1984ء کو برصغیر کے عظیم شاعر، دانشور اور کمیونسٹ انقلابی فیض احمد فیض رحلت فرما گئے۔ فیض صاحب کی شاعری آج ان کے عہد سے بھی زیادہ مقبول ہے، ان کے کروڑوں مداح ہیں لیکن کچھ ناقدین اور لکھاری فیض کی شخصیت، انکی زندگی کے مقصد اور نظریات کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہاں کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی پذیرائی میں کی جانے والے مبالغہ آرائی تلے اس کی اصل شخصیت دب کے رہ جاتی ہے۔خصوصاً کسی ’’بڑی‘‘ شخصیت کے بچھڑ جانے کے بعد مختلف سیاسی اور مذہبی رجحانات اس کی فکر کوگھائل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ’’خراج عقیدتوں‘‘ کے چکر میں متعلقہ شخصیت کے نظریات کو ان کی زد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور داد تحسین کے نعرے بھی ساتھ ساتھ گونجتے رہتے ہیں۔ سیاست اور صحافت کے مختلف رجحانات آج فیض صاحب کی شاعری اور شخصیت کو بھی اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔
جناح صاحب کو یہاں کا حکمران طبقہ ایک لمبے عرصے تک ایک جمہوری اور سیکولر سیاستدان کے طور پر پیش کرتا رہا۔ ان کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ یہاں کی ’’سول سوسائٹی‘‘ اور سیاست کے ’’سیکولر‘‘ رجحانات آج بھی دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اسلامی پارٹیاں اور قدامت پرست دانشور جناح صاحب کی کئی دوسری تقاریر کو استعمال کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ نفاذ شریعت پر مبنی سخت گیر تھیوکریٹک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہی رجحانات ہیں جو جناح صاحب کی زندگی میں ان کے کٹر دشمن اور پرتشدد حد تک نظریہ پاکستان کے دشمن تھے۔
1967ء میں قائم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو جب عوام میں وسیع تر حمایت اور پزیرائی ملنی شروع ہوئی تو پارٹی میں گھسائے جانے والے چند ملاؤں نے جناح صاحب کی چٹاگانگ کی تقریر (مارچ 1948ء) کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور منشور میں شامل سائنسی سوشلزم کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بنا دیا۔انقلابی سوشلزم سے خوفزدہ حکمران طبقہ اور ریاست ’’سوشلزم‘‘ کی اصطلاح اور مطلب کو ہی مسخ کرنا چاہتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ آج مزار بنا کے ذولفقار علی بھٹو کو بھی ایک ’’صوفی‘‘ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ انقلابی سوشلزم کے نعرے پر برسر اقتدار آنے والے عوامی رہنما کے حامیوں اور پارٹی کارکنان کو پیری فقیری کے چکر میں ڈال کر نظریاتی اور سیاسی طور پر مفلوج کر دیا جائے۔
فیض صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ ایک حالیہ اخباری تجزئیے میں فیض صاحب کی شاعری کو کسی ’’مخصوص نظرئیے‘‘ کے ساتھ جوڑنا باقاعدہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ فیض صاحب نے تمام عمر اپنے نظریات کبھی نہیں چھپائے۔ وہ کھل کر بڑی جرات سے خود کو کمیونسٹ قرار دیتے تھے۔ اسی نظرئیے کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، جلا وطن بھی ہوئے لیکن ہر قسم کی تضحیک، جبر اور اذیت کے باوجود ،مرتے دم تک اپنے نظریات چھپائے نہ ان سے منحرف ہوئے۔ فیض کو مارکسزم اور کمیونزم سے الگ قرار دینا کم از کم کسی ذی شعور انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ وکی پیڈیا پر درج فیض صاحب کے اس تعارف کو کسی حوالے کے ضرورت نہیں ہے کہ ’’فیض پراگریسو رائیٹرز مومنٹ‘‘ (PWM) کے سرخیل رکن تھے۔ وہ واشگاف طور پر مارکسسٹ تھے۔ 1962ء میں انہیں سوویت یونین کی طرف سے ’لینن امن انعام‘ سے نوازا گیا…‘‘
ستمبر 1982ء میں پاکستان سے جلاوطن بائیں بازو کے انقلابی کارکنان سے ایمسٹرڈیم میں گفتگو کرتے ہوئے فیض صاحب نے بڑی عاجزی سے اعتراف کیاکہ مارکسزم اور کمیونزم کے نظریات ہی ان کی گہری، سچی اور دل میں اتر جانے والی شاعری کی اصل قوت محرکہ ہیں، سماج کی انقلابی تبدیلی کی تڑپ نے ہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارکر اجاگرکیا۔اس ملاقات میں فیض صاحب نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (متحدہ ہندوستان) اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارڈ ہولنڈنگ ممبر ہونے کی حیثیت سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر بھی چھیڑا۔ فیض مزدور تحریک میں سرگرم رہے اور انتہائی جانفشانی سے ٹریڈ یونین تنظیموں کو انقلابی بنیادوں پر متحد اور منظم کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنے۔
1951ء میں فیض صاحب کو ’’راوپنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار کیا گیا۔ اس کیس کو امریکی سامراج کی خفیہ دستاویزات میں ’’کمیونسٹ کُو‘‘ قرار دیا گیا اور کئی دہائیوں تک پاکستان میں بائیں بازو کی قوتوں پر ریاستی جبر کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اس کیس میں فیض صاحب کو گرفتار اور بعد ازاں قید کروانے میں امریکی سامراج کا گہرا عمل دخل تھا۔ امریکی سامراج اور اس کی پروردہ علاقائی قوتوں کے خلاف تحریکوں میں فیض نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے جلاوطنی کا زیادہ تر وقت بیروت (لبنان) میں گزارا جس کی اہم وجہ فلسطین کی جدوجہد آزادی میں ان کی گہری دلچسپی اور شراکت تھی۔ اس عہد میں چونکہ پی ایل او پر مارکسزم اور بائیں بازو کے نظریات حاوی تھے چنانچہ فیض کو اس تحریک میں مداخلت اور کام کرنے کے زیادہ مواقع میسر آئے۔
فیض صاحب نے جہاں عالمی سامراج سے ٹکر لئے رکھی وہاں مذہبی بنیاد پرستی اور رجعت کے خلاف بھی جدوجہد کرتے رہے:

جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے، جرات تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

آج فیض کے کئی قریبی دوست اور نئی نسل میں ان کے بہت سے مداح سماج پر حاوی رجعت اور پراگندگی سے گھبرا کر ان کے کمیونسٹ ہونے کی سچائی کو چھپانے یا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشکل سے مشکل عہد میں فیض نے ایسی کوئی کوشش کبھی نہیں کی۔ مارکسزم نے فیض کی شخصیت کو جو جلا بخشی اس کا ذکر وہ اپنی نظم ’’رقیب سے‘‘ میں برملا کرتے ہیں:

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

فیض صاحب میں بہت سی نظریاتی کمزوریاں ہو سکتی ہیں، وہ سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق نہیں پائے لیکن مشکل ترین حالات میں بھی انقلابی سوشلزم اور انسانیت کے کمیونسٹ مستقبل پر فیض صاحب کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہو۔ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے

آج مارکسسٹوں کا وقت خراب ہے لیکن ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا۔ ذلت اور بربادی کے اس عہد میں بغاوت بھی پک رہی ہے۔ کسی زمانے میں ’’بائیں بازو‘‘ کے سرخیل رہنما اور دانش ور بھلے مارکسزم اور کمیونزم سے ’’تائب‘‘ہوچکے ہوں لیکن وقت بدلتا ہے، حالات کروٹ کھاتے ہیں۔ تحریک پھر سے ابھرے گی، محنت کش طبقے پھر بیدار ہو گا۔جب تک محنت کش طبقہ موجود ہے، طبقاتی کشمکش پسپا تو ہوسکتی ہے، مٹ نہیں سکتی۔ انسانی سماج کا یہ سائنسی قانون ہی انقلابیوں میں اس امید کو زندہ رکھتا ہے جو ذلت کے اس نظام کو بدلنے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نسل انسان کی بقا اور نجات کو یقینی بنائے گی۔ فیض نے اس امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشتر صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے!

متعلقہ:

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن؟

فیضؔ کون تھے؟

ہم عصر حقیقت نگاری اورفیض


ڈھاکہ سے واپسی پر

$
0
0

faiz ahmed faiz

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظرمیں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
فیض احمد فیضؔ

سرخ پرچم کو عورت اُٹھائے گی اب

$
0
0

Supporters of the Greek Communist party

گیت محنت کی عظمت کے گائے گی اب
سرخ پرچم کو عورت اُٹھائے گی اب
یہ وڈیرے جو ظلم اس پہ ڈھاتے رہے
اُن کی دستار ٹھوکر پہ لائے گی اب
زر پرستوں کے دل خوف کھانے لگیں
کام ایسے بھی کر کے دکھائے گی اب
اونچے محلوں کی زینت بڑھاتی رہی
اپنے آنگن کو جنت بنائے گی اب
اہلِ مذہب رکاوٹ بنے بھی اگر
وہ قدم اپنے آگے بڑھائے گی اب
کیوں صلہ اس کو محنت کا آدھا ملے
ہاتھ حق کے لیے وہ اٹھائے گی اب
ہوں گے مِلوں کے مالک یہ مزدور سب
اس کے لب سے صدا یہ ہی آئے گی اب
سرخ پرچم کو تھامے ہوئے ہاتھ میں
سوئے منزل ہمیں لے کے جائے گی اب
آج طاہرؔ کو عورت سے امید ہے
رہبری ہم کو کر کے دکھائے گی اب

ڈاکٹر طاہرؔ شبیر

انتساب

$
0
0

Faiz Ahmed Faiz

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کے ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب للہ فی الارض، دہقاں کے نام
جس کی ڈوروں کو ظا لم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے اک انگشت پتوار سے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں سے سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتاگئے ہیں
بیواؤں کے نام
کتاریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتے ہیں اکثر وضو
جن کی سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھانے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہی تھے گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کی شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی سر سر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئ ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
 
فیض احمد فیضؔ

تجدید عہد

$
0
0

keep the red flag flying


کوئی سزا نہ فریاد اٹھی ہے اب کے
نہ ملا کوئی پرسا مجھ کو
ستم جو غیر نے ڈھائے سو الگ ڈھائے
اس چارہ گر نے بھی کیا لہو لہو مجھ کو
میرے پرکھوں کی کمائی تو کب کی لٹ بھی چکی
اس غنیم کے ہاتھوں کہ جو محافظ تھا
وہ محافظ!
ملا تھا جس کو فریضہ کہ کوئی بھوک نہ ہو
کسی بھی آنکھ میں اب زندگی کی یاس نہ ہو
کسی کو پیاس نہ ہو
زمیں نہ قحط اگائے حسین کھیتوں میں
کوئی شفا کو نہ ترسے نہ کوئی کوکھ جلے
ڈھکے ہوں جسم سبھی دیس کے مکینوں کے
نہ کوئی شخص پڑا ہو کھلے آسماں کے تلے
میرے پرکھوں کی کمائی تو کب کی لٹ بھی چکی!

مگر یاد رہے اس محل کے مکینوں کو
جہاں کے بام و در ہیں دھلے بے کسوں کے اشکوں سے
جہاں کی محفلوں کی دلفریب رعنائی
بلکتے پیاسوں کا بڑھ بڑھ کے منہ چڑاتی ہے
جہاں کے دیپ میں جلتا ہے غریبوں کا لہو
جہاں فانوس پہ محنت کشوں کی لاشیں ہیں
وہ مکین یاد رکھیں، ہاں قسم سے یاد رکھیں!
سلگ رہی ہے اسی راکھ میں وہ چنگاری
جو بھڑک اٹھی تو یہی بام و در جلا دے گی
کرے گی پھر سے وہی سرخ شرارے روشن
جمود عہد کی ہر بے بسی جلا دی گی
وہ وقت دور نہیں اے میرے سبھی پیارو
میرا مزدور جب خود تقدیر بن کے نکلے گا
کرے گا پھر سے وہی سرخ سویرا روشن
عہد بدلا تھا کبھی، آج پھر سے بدلے گا!

عاطف علی

سرفروشی کی تمنا . . .

$
0
0

bolshevism_back_in_russia

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسمان
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا ادھر
اور ہم تیار ہیں سینہ لئے اپنا ادھر
ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے
سر جو اٹھ جاتے ہیں وہ جھکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن
جان ہتھیلی پر لئے لو، لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہماں موت کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
کیا تمنا ئے شہادت بھی کسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب
ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے

وہ جسم بھی کیا جسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنون
طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتئ ساحل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

بسمل عظیم آبادی

آخری سیلوٹ!

$
0
0

| تحریر: سعادت حسن منٹو |
akhri salute last salute afsana by sasdat hassan mantoیہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔

پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظر میں اسکی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اور سمجھدار سپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پرواہ صرف ایک ہی لگن تھی دشمن کا صفایا کر دینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا تو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست نظر آتے، بڑے بغلی قسم کے دوست جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمن سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔
صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں۔ پچھلی بڑی جنگ کا اعلان۔ ۔ ۔ بھرتی، قد اور چھاتیوں کی پیمائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر محاذ۔ ۔ ۔ ادھر سے اُدھر، اُدھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ۔ ۔ ۔ پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی۔ اوپر تلے کتنی چیزیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ کرنے والے نے یہ سب کچ سوچ سمجھ کر کیا ہے تا کہ دوسرے بوکھلا جائیں اور سمجھ نہ سکیں۔ ورنہ یہ بھی کوئی بات تھی کہ اتنی جلدی اتنے بڑ ے انقلاب برپا ہو جائیں۔
اتنی بات تو صوبیدار رب نواز کی سمجھ میں آ تی تھی کہ وہ کشمیر حاصل کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کیوں حاصل کرنا ہے، یہ بھی وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا ء کیلئے اسکا الحاق اشد ضروری ہے، مگر نشانہ باندھتے ہوئے جب اسے کوئی جانی پہچانی شکل نظر آجاتی تھی تو وہ کچھ دیر کیلئے بھول جاتا تھا کہ وہ کسی غرض کیلئے لڑ رہا ہے، کس مقصد کیلئے اس نے بندوق اُٹھائی ہے۔ اور وہ یہ غالباً اسی لیے بھولتا تھا کہ اسے بار بار خود کو یاد کروانا پڑتا تھا کہ اب کہ وہ صرف تنخواہ، زمین کے مربعوں اور تمغوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے مُلک کی خاطر لڑ رہا ہے۔ یہ وطن پہلے بھی اسکا وطن تھا، وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جو اب پاکستان کا ایک حصّہ بن گیا تھا۔ اب اسے اپنے اسی ہم وطن کے خلاف لڑنا تھا جو کبھی اسکا ہمسایہ ہوتا تھا۔ جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت ہا پشت کے دیرینہ مراسم تھے۔ اب اسکا وطن وہ تھا جس کا پانی تک اس نے کبھی نہیں پیا تھا، پر اب اس کی خاطر، ایک دم اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ حُکم دے دیا گیا تھا کہ جاؤ، یہ جگہ جہاں ابھی تم نے اپنے گھر کیلئے دو اینٹیں بھی نہیں چُنیں‘جس کی ہوا اور جس کے پانی کا مزا ابھی تک تمہارے منہ میں ٹھیک طور نہیں بیٹھا، تمہارا وطن ہے۔ ۔ ۔ جاؤ اس کی خاطر پاکستان سے لڑو۔ ۔ ۔ اُس پاکستان سے جس کے عین دل میں تم نے اپنی عُمر کے اتنے برس گزارے ہیں۔
رب نواز سوچتا تھا کہ یہی حال ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ان سب سے سب کچھ چھین لیا گیاتھا۔ یہاں آ کر انہیں اور تو کچھ نہیں ملا، البتّہ بندوقیں مل گئی ہیں۔ اُسی وزن کی، اُسی شکل کی، اُسی مارکہ اور چھاپ کی۔
پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن کے خلاف لڑتے تھے جن کو انہوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کر لیا تھا۔ اب وہ خود دو حصّوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے، رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑ بڑ سی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔ ۔ ۔ پاکستانی فوجی کشمیر کیلئے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مُسلمانوں کیلئے؟اگر انہیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کیلئے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آ با د اور جونا گڑ ھ کے مسلمانوں کیلئے کیوں انہیں لڑنے کیلئے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹھ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی مُلک ہیں وہ اس میں کیوں حصّہ نہیں لیتے۔
رب نواز بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک باتیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنی چاہئیں۔ اس کی عقل موٹی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ موٹی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے، مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر غور کر ہی لیتا تھااور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔
دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کیلئے جو مظفر آ باد سے کرن جاتی ہے، کچھ عرصے سے لڑ ائی ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ عجیب و غریب لڑائی تھی۔ رات کو بعض اوقات آس پاس کی پہاڑیاں فائروں کی بجائے گندی گالیوں سے گونج اُٹھتی تھیں۔
ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پلٹون کے جوانوں کے ساتھ شب خون مارنے کیلئے تیار ہو رہا تھا کہ دور نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اُٹھا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسے لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں اور زور زور کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ بڑبڑایا: ’’خنزیر کی دُم…. یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘
ایک جوان نے گونجتی ہوئی آ واز سے مخاطب ہو کر یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا ’’ صوبیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنی ماں کے یار۔‘‘
رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اُکسانے والی تھیں۔ اس کے جی میں آئی کہ بزن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چُپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو اُنہوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر گالیاں لڑھکانا شروع کر دیں…. رب نواز کیلئے اس طرح کی لڑائی بالکل نئی چیز تھی۔ اس نے نوجوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کیلئے کہا، مگر گالیاں ہی کچھ ایسی تھیں کہ جواب دیے بنا انسان سے نہیں رہا جاتا تھا۔
دشمن کے سپاہی نظر سے اوجھل تھے۔ رات کو تو خیر اندھیرا تھا، مگر وہ دن کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ صرف ان کی گالیاں نیچے پہاڑی کے قدموں سے اُٹھتی تھیں اور پتھروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر ہوا میں چلی جاتی تھیں۔ رب نواز کی پلاٹون کے جوان جب ان گالیوں کا جواب دیتے تھے تو اس کو ایسے لگتا تھا کہ وہ نیچے نہیں جاتیں، اوپر کو اُڑ جاتی ہیں۔ اس سے اس کو خاصی کوفت ہوتی تھی… چنانچہ اس نے جھنجھلا کر حملہ کرنے کا حُکم دے دیا۔
رب نواز کو وہاں کی پہاڑیوں میں ایک عجیب سی بات نظر آئی تھی۔ چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھُدی ہوئی تھی اور اُترائی کی طرف گنجی۔ کشمیری بتو کے سر کی طرح۔ کسی کی چڑھائی کا حصّہ گنجا ہوتا تھا اور اُترائی کی طرف درخت ہی درخت ہوتے تھے۔ چیڑ کے لمبے تناور درخت، جن کے بٹے ہوئے دھاگے جیسے پتّوں پر فوجی بُوٹ پھسل پھسل جاتے تھے۔
جس پہاڑی پر صوبیدار رب نواز کی پلاٹون تھی، اس کی اُترائی درختوں اور جھاڑیوں سے بے نیاز تھی۔ ظاہر ہے حملہ بہت ہی خطرناک تھا مگر سب جوان بخوشی تیار تھے۔ گالیوں کا انتقام لینے کیلئے وہ بہت بے تاب تھے۔ حملہ ہوا اور کامیاب رہا۔ دو جوان مر گئے۔ چار زخمی ہوئے۔ دشمن کے تین آدمی کھیت رہے۔ باقی رسد کا کچھ سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
صوبیدار رب نواز اور اس کے جوانوں کو اس بات کا بڑا ہی دُکھ تھا کہ دشمن کا کوئی زندہ سپاہی ان کے ہاتھ نہ آ یا جس کو وہ خاطرخواہ گالیوں کا مزا چکھاتے۔ مگر مورچہ فتح کرنے سے وہ ایک بڑی اہم پہاڑی پر قابض ہو گئے تھے۔ وائر لیس کے ذریعے سے صوبیدار رب نواز نے پلاٹون کمانڈر میجر اسلم کو فوراً ہی اپنے اس حملے کے نتیجے سے مطلع کر دیا تھا اور شاباش وصول کر لی تھی۔
قریب قریب ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک تالاب سا ہوتا تھا۔ اس پہاڑی پر بھی تالاب تھا، مگر دوسری پہاڑیوں کے تالابوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا۔ اس کا پانی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ گو موسم بہت سرد تھا مگر سب نہائے۔ دانت بجتے رہے مگر اُنہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ ابھی اس شغل میں مصروف تھے کہ فائر کی آواز آئی۔ سب ننگے ہی لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد صوبیدار رب نواز نے دوربین لگا کر نیچے ڈھلوانوں پر نظر دوڑائی، مگر اسے دشمن کی چھُپنے کی جگہ کا پتہ نہ چلا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ایک اور فائر ہوا۔ دور اُترائی کے فوراً بعد ایک نسبتاًچھوٹی پہاڑی کی داڑھی سے اسے دھواں اُٹھتا نظر آیا۔ اس نے فوراً ہی اپنے جوانوں کو فائر کا حُکم دیا۔
ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ اُدھر سے بھی جوابأ گولیاں چلنے لگیں …. صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالبأ بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی اِدھر اُدھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔
تھوڑی دیر فائر ہوتے رہے۔ اس کے بعد رب نواز نے اپنے جوانوں کو منع کر دیاکہ وہ گولیاں ضائع نہ کریں صرف تاک میں رہیں۔ جونہی دشمن کا کوئی سپاہی پتھروں کی دیوار سے نکل کر اٖدھر یا اُدھرجانے کی کوشش کرے اس کو اُڑا دیں۔ یہ حُکم دے کر اس نے اپنے الف ننگے بدن کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا : ’’خنزیر کی دُم… کپڑوں کے بغیر آدمی حیوان معلو م ہوتا ہے۔‘‘
لمبے لمبے وقفوں کے بعد دشمن کی طرف سے اٖکّا دُکّا فائر ہوتا رہا۔ یہاں سے اس کا جواب کبھی کبھی دے دیا جاتا۔ یہ کھیل پورے دو دن جاری رہا…. موسم یک لخت بہت سرد ہو گیا۔ اس قدر سرد کہ دن کو بھی خون منجمد ہونے لگتا تھا، چنانچہ صوبیدار رب نواز نے چائے کے دور شروع کروا دیئے۔ ہر وقت آگ پر کیتلی دھری رہتی۔ جونہی سردی زیادہ ستاتی ایک دور اس گرم گرم مشروب کا ہو جاتا۔ ویسے دشمن پر برابر نگاہ تھی۔ ایک ہٹتا تو دوسرا اس کی جگہ دوربین لے کر بیٹھ جاتا۔
ہڈیوں تک اُتر جانے والی سرد ہوا چل رہی تھی۔ جب اس جوان نے جو پہرے دار تھا، بتایا کہ پتھروں کی دیوار کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے، صوبیدار رب نواز نے اس سے دوربین لی اور اسے غور سے دیکھا۔ اسے حرکت نظر نہ آئی لیکن فورأ ہی ایک آواز بلند ہوئی اور دیر تک اس کی گونج آس پاس کی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی۔ رب نواز اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس کے جواب میں اس نے اپنی بندوق داغ دی۔ اس کی گونج دبی تو پھر اُدھر سے آ واز بلند ہوئی، جو صاف طور پر ان سے مخاطب تھی۔ رب نواز چلّایا:’’خنزیر کی دُم۔ بول کیا کہتا ہے تُو!‘‘
فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ رب نواز کے الفاظ دشمن تک پہنچ گئے۔ کیوں کہ وہاں سے کسی نے کہا۔ ’’گالی نہ دے بھائی۔‘‘
رب نواز نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا اور بڑے جھنجھلائے ہوئے تعجّب کے ساتھ کہا’’ بھائی؟…‘‘ پھر وہ اپنے منہ کے آگے ہاتھوں کا بھونپا بنا کر چلایا ’’بھائی ہو گا تیری ماں کا جنا…. یہاں سب تیری ماں کے یار ہیں!‘‘
ایک دم اُدھر سے ایک زخمی آواز بلند ہوئی۔ ’’رب نواز!‘‘
رب نواز کانپ گیا…..یہ آواز آس پاس کی پہاڑیوں سے اپنا سر پھوڑتی رہی اور مختلف انداز میں رب نواز… رب نواز دہراتی بالآخر خون منجمد کر دینے والی سرد ہوا کے ساتھ جانے کہاں اُڑ گئی۔
رب نواز بہت دیر کے بعد چونکا ’’یہ کون تھا۔‘‘ پھر آہستہ سے بڑ بڑایا: ’’ خنزیر کی دُم!‘‘
اس کو اتنا معلوم تھا ٹیٹوال کے محاذ پر سپاہیوں کی اکثریت 2/9 رجمنٹ کی ہے۔ وہ بھی اسی رجمنٹ میں تھا۔ مگر یہ آ واز تھی کس کی؟وہ ایسے بے شمار آدمیوں کو جانتا تھا جو کبھی اس کے عزیز ترین دوست تھے۔ کچھ ایسے بھی جن سے اس کی دشمنی تھی، چند ذاتی اغراض کی بنا ء پر۔ لیکن یہ کون تھا جس نے ا س کی گالی کا بُرا مان کر اسے چیخ کر پکارا تھا۔
رب نواز نے دوربین لگا کر دیکھا، مگر پہاڑی کی ہلتی ہوئی چھدری داڑھی میں اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دونوں ہاتھوں کا بھونپا بنا کر اس نے اپنی آواز ادھر پھینکی ’’یہ کون تھا؟… رب نواز بول رہا ہے…. رب نواز… رب نواز۔‘‘
یہ رب نواز، بھی کچھ دیر تک پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتا رہا۔ رب نواز بڑ بڑایا۔ ’’خنزیر کی دُم !‘‘ فورأ ہی اُدھر سے آ واز بلند ہوئی’’ میں ہوں ….. میں ہوں رام سنگھ!‘‘
رب نواز یہ سُن کر یوں اُچھلا جیسے وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف جانا چاہتا ہے۔ پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’ رام سنگھ؟… اوئے رام رام سنگھا …. خنزیر کی دُم!‘‘
’’ خنزیر کی دُم‘‘ ابھی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر گُم نہیں ہوئی تھی کہ رام سنگھ کی پھٹی پھٹی آ واز بلند ہوئی۔ ’’ اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز پھوں پھوں کرنے لگا۔ جوانوں کی طرف رعب دار نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بڑ بڑایا۔ ’’ بکتا ہے… خنزیر کی دُم!‘‘ پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا۔ ’’ ارے بابا ٹل کے کڑاہ پرشاد… اوئے خنزیر کے جھٹکے۔‘‘
رام سنگھ بے تحاشا قہقہے لگانے لگا۔ رب نواز بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ پہاڑیاں یہ آ وازیں بڑے کھلنڈرے انداز میں ایک دوسرے کیطرف اُچھالتی رہیں…. صوبیدار رب نواز کے جوان خاموش تھے۔
جب ہنسی کا دورہ ختم ہوا تو اُدھر سے رام سنگھ کی آواز بلند ہوئی’’ دیکھو یار۔ ہمیں چائے پینی ہے!‘‘
رب نوازبولا ’’ پیو… عیش کرو۔‘‘
رام سنگھ چلایا ’’ اوئے عیش کس طرح کریں …. سامان تو ہمارا اُدھر پڑا ہے۔‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کدھر؟‘‘
رام سنگھ کی آواز آئی ’’ اُدھر…. جدھر تمہارا فائر ہمیں اُڑا سکتا ہے۔‘‘
رب نواز ہنسا’’ تو کیا چاہتے ہو تم… خنزیر کی دُم!‘‘
رام سنگھ بولا ’’ ہمیں سامان لے آ نے دے‘‘۔
’’لے آ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے جوانوں کیطرف دیکھا۔
رام سنگھ کی تشویش بھری آواز بلند ہوئی ’’ تُو اُڑا دے گا، کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز نے بھنا کر کہا’’ بک نہیں اوئے سنتوکھ سر کے کچھوے۔‘‘
رام سنگھ ہنسا’’قسم کھا نہیں مارے گا!‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کس کی قسم کھاؤ ں۔‘‘
رام سنگھ نے کہا ’’ کسی کی بھی کھا لے!‘‘
رب نواز ہنسا’’ اوئے جا …. منگوا لے اپنا سامان۔‘‘
چند لمحات خاموشی رہی، دوربین ایک جوان کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے صوبیدار رب نواز کی طرف دیکھا۔ بندوق چلانے ہی والا تھا کہ رب نواز نے اسے منع کر دیا۔ ’’نہیں….نہیں!‘‘
پھر اس نے دوربین لے کر خود دیکھا۔ ایک آدمی ڈرتے ڈرتے پنجوں کے بل پتھروں کے عقب سے نکل کر جا رہا تھا۔ تھوڑی دُور اس طرح چل کر وہ اُٹھااور تیزی سے بھاگا اور کچھ دُور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ دو منٹ کے بعد واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا۔ ایک لحظے کیلئے وہ رُکا۔ پھر تیزی سے پتھروں کی محفوظ دیوار کی طرف بھاگا اور بالآخر وہاں پہنچ گیا۔ وہ نظروں سے اجھل ہوا تو رب نواز نے اپنی بندوق چلا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی رب نواز کا قہقہہ بلند ہوا۔ یہ دونوں آوازیں مل کر کچھ دیر جھنجھناتی رہیں۔ پھر رام سنگھ کی آواز آئی ’’ ’’تھینک یو۔‘‘
’’نو مینشن۔‘‘ رب نواز نے یہ کہہ کر جوانوں کی طرف دیکھا۔ ’’ ایک راؤنڈ ہو جائے۔‘‘
تفریح کے طور پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں …. پھر خاموشی ہو گئی۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا۔ پہاڑی کی داڑھی میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ وہ پکارا۔ ’’ چائے تیار کر لی رام سنگھا؟‘‘
جواب آیا۔ ’’ ابھی کہاں اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز ذات کا کمہار تھا۔ جب کوئی اس کی طرف اشارہ کرتا تھا تو غُصّے سے اس کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ایک صرف رام سنگھ کے منہ سے وہ اسے برداشت کر لیتا تھا اس لیے کہ وہ اس کا بے تکلف دوست تھا۔ ایک ہی گاؤں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے۔ دونوں کی عمر میں صرف چند دن کا فرق تھا۔ دونوں کے باپ، پھر اُن کے باپ بھی آپس میں دوست تھے۔ ایک ہی سکول میں پرائمری تک پڑھے تھے اور پھر ایک ہی دن فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور پچھلی بڑی جنگ میں کئی محاذوں پر اکٹھے لڑے تھے۔
رب نواز اپنے جوانوں کی نظروں میں خود کو خفیف محسوس کر کے بڑبڑایا: ’’ خنزیر کی دُم …. اب بھی باز نہیں آتا۔‘‘ پھر وہ را سنگھ سے مخاطب ہوا ’’ بک نہیں اوئے کھوتے کی جوں۔‘‘
رام سنگھ کا قہقہہ بلند ہوا۔ رب نواز نے ایسے ہی شست باندھی ہوئی تھی۔ تفریحأ اس نے لبلی دبا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ رب نواز نے فورأ دوربین لگائی اور دیکھا ایک آدمی، نہیں، رام سنگھ پیٹ پکڑے، پتھروں کی دیوار سے ذرا ہٹ کر دوہرا ہوا اور گر پڑا۔
رب نواز زور سے چیخا’’ رام سنگھ!‘‘ اور اُٹھ کر کھڑا ہو گیا، اُدھر سے بیک وقت تین چار فائر ہوئے۔ ایک گولی رب نواز کا دایاں بازو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ فورأ ہی وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے فائر شروع ہو گئے۔ اُدھر کچھ سپاہیوں نے گڑ بڑ سے فائدہ اُٹھا کر پتھر کی عقب سے نکل بھاگنا چاہا۔ ادھر سے فائر جاری تھے۔ مگر نشانے پر کوئی نہ بیٹھا۔ رب نواز نے اپنے جوانوں کو اُترنے کا حُکم دیا۔ تین فورأ ہی مارے گئے مگر افتاں ہ خیزاں باقی جوان دوسری پہاڑی پر پہنچ گئے۔
رام سنگھ خون میں لت پت پتھریلی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ رب نواز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتا اُٹھیں۔ مسکرا کر اس نے کہا۔ ’’ اوئے کمہار کے کھوتے، یہ تُو نے کیا کیا۔‘‘
رب نواز رام سنگھ کا زخم اپنے پیٹ میں محسوس کر رہا تھا۔ لیکن وہ مسکرا کر اس پر جھُکا اور دو زانو ہو کر اس کی پیٹی کھولنے لگا۔ ’’ خنزیر کی دُم، تم سے کس نے باہر نکلنے کو کہا تھا۔‘‘
پیٹی اُتارنے سے رام سنگھ کو سخت تکلیف ہوئی۔ درد سے وہ چلّا چلّا پڑا۔ جب پیٹی اتر گئی اور رب نواز نے زخم کا معائنہ کیا جو بہت خطرناک تھا تو رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ دبا کر کہا’’ میں اپنا آپ دکھانے کیلئے باہر نکلا تھا کہ تُو نے……. اوئے رب کے پتر فائر کر دیا۔‘‘
رب نوازکا گلا رندھ گیا۔ ’’قسم وحدہ لا شریک کی…. میں نے ایسے ہی بندوق چلائی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھاکہ تُو کھوتے کا سنگھ باہر نکل رہا ہے….. مجھے افسوس ہے!‘‘
رام سنگھ کا خون کافی بہہ نکلا تھا۔ رب نواز اور اسے ساتھی کئی گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ اس عرصے تک تو ایک پوری مشک خون کی خالی ہو سکتی تھی۔ رب نواز کو حیرت تھی کہ اتنی دیر تک رام سنگھ زندہ رہ سکا۔ اس کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا۔ ہلانا جلانا غلط تھا، چنانچہ اس نے فورأ وائرلیس کے ذریعے پلاٹون کمانڈر سے درخواست کی کہ جلدی ایک ڈاکٹر روانہ کیا جائے۔ اس کا دوست رام سنگھ زخمی ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر کا وہاں تک پہنچنا اور پھر وقت پر پہنچنا محال تھا۔ رب نواز کو یقین تھا کہ رام سنگھ صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ پھر بھی وائرلیس پر پیغام پہنچا کر اس نے مسکرا کر رام سنگھ سے کہا ’’ ڈاکٹر آ رہا ہے… کوئی فکر نہ کر۔‘‘
رام سنگھ بڑی نحیف آواز میں سوچتے ہوئے بولا’’ فکر کسی بات کی نہیں …. میرے کتنے جوان مارے ہیں تم لوگوں نے؟‘‘
رب نواز نے جواب دیا’’ صرف ایک!‘‘
رام سنگھ کی آواز اور زیادہ نحیف ہو گئی’’ تیرے کتنے مارے گئے؟‘‘
رب نواز نے جھوٹ بولا’’چھ!‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔
’’چھ….چھ‘‘ رام سنگھ نے ایک ایک آدمی اپنے دل میں گنا۔ ’’ میں زخمی ہوا تو وہ بہت بد دل ہو گئے تھے…. پر میں نے کہا …. کھیل جاؤ اپنی اور دشمن کی جان سے…. چھ … ٹھیک ہے!‘‘وہ پھر ماضی کے دھندلکوں میں چلا گیا۔ ’’رب نواز… یاد ہیں وہ دن تمہیں…..‘‘
اور رام سنگھ نے بیتے دن یاد کرنا شروع کر دیئے۔ کھیتوں کھلیانوں کی باتیں۔ سکول کے قصّے۔ 2/9 رجمنٹ کی داستانیں…. کمانڈنگ افسروں کے لطیفے اور باہر کے ملکوں میں اجنبی عورتوں سے معاشقے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے رام سنگھ کو کوئی بہت دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ہنسنے لگا تو اس کے ٹیس اُٹھی مگر اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ زخم سے اوپر ہی اوپر ہنس کر کہنے لگا’’ اوئے سور کے نل…. یاد ہے تمہیں وہ میڈم…‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کون؟‘‘
رام سنگھ نے کہا ’’ وہ …. اٹلی کی…. کیا نام رکھا تھا ہم نے اُس کا…. بڑی مارخور عورت تھی!‘‘
رب نواز کو فورأ ہی وہ عورت یاد آ گئی۔ ’’ہاں، ہاں….وہ……میڈم منیتا فنتیو….. پیسہ ختم، تماشہ ختم…… پر تجھ سے کبھی کبھی رعایت کر دیتی تھی مسولینی کی بچی!‘‘
رام سنگھ زور سے ہنسا … اور اس کے زخم سے جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا نکل آیا۔ سرسری طور پر رب نواز نے جو پٹّی باندھی تھی۔ وہ کھسک گئی تھی۔ اسے ٹھیک کر کے اس نے رام سنگھ سے کہا ’’ اب خاموش رہو۔‘‘
رام سنگھ کو بہت تیز بُخار تھا۔ اس کا دماغ اس کے باعث بہت تیز ہو گیا تھا۔ بولنے کی طاقت نہیں تھی مگر بولے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی رُک جاتا۔ جیسے یہ دیکھ رہا ہے کہ ٹینکی میں کتنا پٹرول باقی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی، لیکن کچھ ایسے وقفے بھی آتے تھے کہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوتے تھے۔ انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ رب نواز سے سوال کیا۔ ’’یار سچو سچ بتا، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیئے !‘‘
رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا ’’ ہاں، رام سنگھا!‘‘
رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا۔ ’’ نہیں…. میں نہیں مان سکتا…. تمہیں ورغلایا گیا ہے۔‘‘
رب نواز کو اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا’’ تمہیں ورغلایا گیا ہے… قسم پنج تن پاک کی…‘‘
رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ قسم نہ کھا یارا …. ٹھیک ہو گیا۔‘‘لیکن اس کا لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ اسے رب نواز کی قسم کا یقین نہیں۔
دن ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے پلاٹون کمانڈ نٹ میجر اسلم آیا۔ اس کے ساتھ چند سپاہی تھے، مگر ڈاکٹر نہ تھا۔ رام سنگھ بے ہوشی اور نزع کی حالت میں کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔ مگر آواز اس قدر کمزور اور شکستہ تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ میجر اسلم بھی 2/9 رجمنٹ کا تھا اور رام سنگھ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ رب نواز سے سارے حالات دریافت کرنے کے بعداس نے رام سنگھ کو بلایا…….’’رام سنگھ…….رام سنگھ!‘‘
رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیٹے لیٹے اٹینشن ہو کر اس نے سلیوٹ کیا لیکن پھر آنکھیں کھول کر اس نے ایک لحظے کے لیے غور سے میجر اسلم کی طرف دیکھا۔ اس کا سلیوٹ کرنے والا اکڑا ہوا ہاتھ ایک دم گر پڑا۔ جھنجھلا کر اس نے بڑبڑانا شروع کیا۔ ’’کچھ نہیں اوئے رام سایاں….. بھول ہی گیا تو سور کے نلّا……کہ یہ لڑائی…….یہ لڑائی؟‘‘
رام سنگھ اپنی بات پوری نہ کر سکا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اس نے رب نوازکی طرف نیم سوالیہ انداز میں دیکھا اور سرد ہو گیا۔
17 اکتوبر 1951ء

ہم محنت کش جگ والوں سے . . .

$
0
0

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اک کھیت نہیں اک دیش نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے

یہاں ساگر ساگر موتی ہیں، یہاں پربت پربت ہیرے ہیں
یہ سارا مال ہمارا ہے، ہم سارا خزانہ مانگیں گے

جو خون بہا جو باغ اجڑے، جو گیت دلوں میں قتل ہوئے
ہر قطرے کا ہر غنچے کا ہر گیت کا بدلہ مانگیں گے

یہ سیٹھ بیوپاری رجواڑے دس لاکھ تو ہم دس لاکھ کروڑ
یہ کتنے دن امریکہ سے جینے کا سہارا مانگیں گے

جب تبدیلی ہوجائے گی، جب سب جھگڑے مٹ جائیں گے
ہم ہر اک دیش کے جھنڈے پر اک لال ستارہ مانگیں گے!


سرمایہ دار لٹیرے ہیں!

$
0
0

کچھ ایسے وردی والے ہیں
جو ہم پر رعب جماتے ہیں
کچھ مذہب کے رکھوالے ہیں
جو ناحق خون بہاتے ہیں
ہر محنت کش نے ہاتھوں میں
اب تھامے سرخ پھریرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یاں دانشور حق لکھنے پر
زنداں میں ڈالے جاتے ہیں
یاں جاہل لوگ حکومت میں
کالے قانون بناتے ہیں
ان اہلِ حَکم کی سوچوں میں
اب تک تاریک سویرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یہ ملکی دولت لوٹتے ہیں
اور پھر بھی شان سے جیتے ہیں
یہ کیسے اپنے رہبر ہیں
جو خون ہمارا پیتے ہیں
اس خون کے دم سے قائم ہیں
جو ان کے اونچے ڈیرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یوں کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے
ہم بیٹھے اشک بہائیں گے
تم دیکھنا اک دن ہم مل کر
ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
ان کی کرتوتوں کے باعث
اس دیس میں آج اندھیرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
وہ دن بھی طاہرؔ آئے گا
جو دیس میں خوشیاں لائے گا
ہر دہقاں، ہر مزدور یہاں
پھر ایک ترانہ گائے گا
یہ ملیں بھی، یہ ڈیرے بھی
سب میرے ہیں، ہاں میرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں

ڈاکٹر طاہرؔ شبیر

بجٹ

$
0
0

اس برس بھی نامہء اموال میں
رہبروں کا حصہ ہے ہر مال میں
پھر وہی دھوکہ وہی جنجال میں
لوگ پھر آئیں گے ان کی چال میں
پھر بڑھیں گے بجلی پانی کے ہی نرخ
کم نہ ہوں گی مشکلیں اس سال میں
اس دفعہ بھی قوم نے ہے دیکھنی
نورا کشی پھر اسمبلی ہال میں
موج میں جو منشیوں نے لکھ دیا
پاس ہونا ہے اسے ہر حال میں
جو بھی آیا لوٹ کر چلتا بنا
سب خزانے چھپ گئے پاتال میں
مفلسی لوگوں کی خوشیاں کھا گئی
تازگی کیسے ہو خدوخال میں
حق ملے گا تب یہاں محکوم کو
جب چلیں گے مل کے سب ہڑتال میں

ڈاکٹرطاہر شبیر

’’بجرنگی‘‘ کے نکھارے رنگ

$
0
0

| تحریر: لال خان |

جب کوئی عہد بانجھ ہو جائے تو اس کی سیاست، ثقافت اور معاشرت میں روشن خیالی اور انسانیت کے جذبات کی تنزلی ایک سماجی عذاب بن جاتی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں کے دوران برصغیر کی ثقافت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا شعبہ فلمی صنعت رہی ہے۔آج فلم، فنون لطیفہ، فن تعمیر اور مصوری میں تنزلی واضح نظر آتی ہے۔ یہ ’’پرانے خیالات‘‘ نہیں ہیں بلکہ ثقافتی معیاروں کے ایسے قوانین ہیں جو تاریخ اور وقت کی سرحدوں میں قید نہیں ہو سکتے۔ اگر ’’جدیدیت‘‘ کو ایک غیر جدلیاتی انداز میں دیکھا جائے تو پھر احرام مصر اور تاج محل کا شمار فن تعمیر کے شاہکاروں میں نہیں ہو سکتا۔
لیکن جب تک ایک انسانی سماج موجود ہے، محنت کش طبقہ کار فرما رہتا ہے اور انسان کی جمالیاتی حسوں کی موت نہیں ہو سکتی۔ بد ترین ادوار میں بھی اعلیٰ فن پارے تخلیق پا سکتے ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں چیدہ چیدہ ہی ہوتی ہیں۔ کون جانے تاریخ، وقت، حالات اور واقعات کس کے ہاتھوں کیا کروا جائیں!
bajrangi bhai jaan posterموجودہ دور میں ہندوستان، پاکستان اور ہالی ووڈ کی فلموں میں جو تشدد، بیہودگی اور وحشت کا سلسلہ جاری ہے اس کے پیش نظر ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ اس فنی تنزلی کی یلغار کے بالکل برعکس فلم ہے۔ سلمان خان اور کبیر خان نے یہ فلم کیوں اور کیسے بنا ڈالی، اس کو صرف تاریخی حادثہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی فلموں میں عام طور پر تشدد، عریانی اور سطحی مفروضے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن مذکورہ فلم نے سنسر زدہ ہونے کے باوجود رشتے اور محبت کے وہ رنگ پھر سے نکھارے ہیں جو دل کی گہرائی اور روح کی کوکھ میں پھیکے پڑ گئے تھے۔ یہ انسانیت اور محبت کے رنگ ہیں جن پر اس خطے کے حکمرانوں نے نفرت کی سیاہی بکھیرنے کی پوری کوشش کی ہے اور حقارت کے اس زہر نے سوچ کو مجروح کر رکھا ہے۔
فلم میں اگرچہ دشمنی کے اس کھلواڑ کی حقیقی وجوہات اور حکمرانوں کے ان جرائم کے مقاصد کو واضح نہیں کیا گیا ہے لیکن ایک کمرشل فلم کے لئے ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔ لیکن ایک حقیقت کو بخوابی واضح کیا گیا ہے کہ باد صبا، کسی بچے کی مسکراہٹ اور بہار کے طلوع ہوتے ہوئے سورج کی پہلی کرنوں کا کوئی دھرم ہوتا ہے نہ دیس اور قوم!
بی جے پی، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشت، شیو سینا اور دوسرے ہندو بنیاد پرست گروہوں پر اس فلم نے بڑی بھاری ضرب لگائی ہے لیکن اسے بنایا اس طرح سے گیا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ایسے اشارے، ڈائیلاگ اور مناظر فلم بند کئے گئے ہیں جو کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ عام انسان بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے کہ غربت، محرومی اور ذلت کی آگ میں جلتے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے درمیان دشمنی کی دیوانگی ’فطری‘ ہے نہ ہی بے سبب۔
آج اگر ہندوستان کے حکمران مذہبی تعصب کی رجعت کو سماج پر حاوی کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تو سرحد کے اس پار بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ مذہب کے ان ٹھیکیداروں کا سارا کاروبار ہی اس دشمنی اور نفرت پر چلتا ہے۔ ریاستوں کو بھی یہ زہر سماج کی رگوں میں اتارتے رہنے کی ضرورت ہمیشہ درکار ہوتی ہے۔ اس نظام کی سیاست کے پاس عام انسانوں کے حقیقی مسائل حل کرنے کا کوئی نظریہ تو ہے نہیں۔ ایسے میں دشمنی کی نعرہ بازی اور بڑھکیں ہی سیاست میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مذہب، ریاست اور سیاست جس نظام کے آلہ کار بنا کر استعمال کئے جار ہے ہیں اس میں غربت بڑھتی ہی ہے اور ذلت انتہاؤں کو پہنچ کر سماجی زندگی کو تاراج کر رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جبر کے ایسے ادوار میں تحریکوں اور انقلابوں کو زندہ رکھنے میں فن اور ثقافت کا اہم کردار بنتا ہے۔ تمام نقاد سب سے بڑا ادب، مزاحمتی ادب کو قرار دیتے ہیں۔یہاں ضیا آمریت کی درندگی ہو یا چلی میں پنوشے کی وحشت، ایسی اذیتوں میں بھی اعلیٰ پائے کی شاعری بغاوت کے روپ دھارتی رہی ہے۔ لیکن ایسے تلخ عہد امتحان بھی لیتے ہیں اور بہت کم فنکار، ادیب اور شاعر ہی ایسے ہوتے ہیں جو درمیانے طبقے کی سہل زندگی کو ترک کر کے ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ اور جرات رکھتے ہیں۔
جبر بھی صرف آمر یا ریاست کا نہیں ہوا کرتا۔جمہوریت ہو یا آمریت، سرمایہ داری میں سرمائے کا جبر ہمیشہ روا رہتا ہے اور جب سرمائے کا نظام کوئی سماجی یا معاشی استحکام پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو پراگندگی، نفسا نفسی، موقع پرستی، ضمیر فروشی اور رجعت معاشرت کے رگ و پے میں سرایت کرنے لگتے ہیں۔ آج برصغیر کچھ ایسے ہی تاریخی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت کی میٹھی چھری زیادہ گہرائی میں گھائل کرتی ہے۔ یہ زخم نظر بھی نہیں آتے اور اندر ہی اندر تکلیف کی انتہا بھی کر دیتے ہیں۔
برصغیر میں سینما کی تاریخ دیکھیں تو 1950ء سے 1980ء تک کی دہائیوں میں طبقاتی جبر و استحصال کے موضوعات حاوی نظر آتے ہیں۔ ان فلموں کی تھیم ہوا کرتی تھی کہ امارت اور غربت کی خلیج کس طرح رشتوں کو بیگانہ، اپنوں کو پرایا، محبوب کو بے وفا، دوستوں کو دشمن اور پیار کو بیوپار بنا دیتی ہے۔ بنیادی وجہ ہے کہ اس عہد کی سیاست میں بائیں بازو کی گہری چھاپ موجود تھی، ترقی پسند نظریات کی پیاس نوجوانوں میں ہوا کرتی تھی، مزدور تحریک مضبوط تھی، تحریکیں ابھرتی رہتی تھیں اور روایتی قیادتوں کی تمام تر غداری کے باوجود بھی محنت کش طبقہ پسپائی کا شکار نہیں ہوا تھا۔وہ وقت چلا گیا، ایک عہد مٹ گیا۔ آج جھوٹ سچائی پر حاوی ہے۔نظریات سیاست سے سبکدوش کر دئیے گئے ہیں۔ محنت کش طبقہ غداریوں سے مجروح ہے۔ نوجوان نسل میں کسی مستقبل کی امید مٹ گئی ہے اوراس یاس سے جنم لینے والی بیگانگی نے انہیں تشدد، بے راہ روی، بیہودگی، بدتہذیبی اور خود غرضی میں ڈبو رکھا ہے۔ لیکن اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ بھی صدا نہیں چلے گا۔
اس عہد میں حکمران طبقات کے پرفریب ہتھکنڈوں کو چیلنج کرنا ہی ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کا کما ل ہے۔ معلوم نہیں ہندوستان میں ہندو بنیاد پرستوں نے کتنے سینما گھر جلائے ہوں گے اور پاکستان میں سینسر کی تلوار کیا کچھ کاٹے گی۔ لیکن پیغام ضرور پہنچ گیا ہو گا کہ انسانوں کے درمیان رشتہ انسانیت کا ہے اور اس سے بڑا رشتہ کوئی نہیں ہے۔ انسانیت کا رشتہ زندگی سے ہے لیکن زندگی کا دارومدار اس بنیاد پر ہے کہ اس کو کس طرح گزارا جاتا ہے۔ کون ساری زندگی مشقت میں گزار کر بھی محرومی میں تڑپتا ہے اور کون محنت کی دولت لوٹ کر بیہودہ عیاشی کی انسان دشمن زندگی جیتا ہے۔یہ فلم سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں موجود اس طبقاتی استحصال کو عیاں نہیں کرتی۔ لیکن اس کمی کے باوجود ہندوستانی حکمرانوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے اس تاثر پر کاری ضرب ضرور لگا گئی ہے کہ ہر پاکستانی مذہبی جنونی ہوتا ہے۔
بہت کم فلمیں ہیں جن کے اختتام پر ناظرین کھڑے ہو کر تالیوں کے ذریعے داد دیتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ دیکھنے والے برصغیر کے تارکین وطن جو قومی یا مذہبی منافرت لے کر سینما میں داخل ہوئے تھے وہ شاید سینما میں ہی کہیں دفن ہو گئی۔ باہر نکلتے وقت محبت اور بھائی چارے کے جذبات چہروں پر نمایاں تھے۔ فلم میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب نا انصافی کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوں تو بڑی سے بڑی ریاست اور فوج بھی ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے، سرحدیں مٹ جاتی ہیں، نئے راستے کھلتے ہیں اور عوام آگے بڑھتے ہیں۔ ظلم کو برداشت تو کیا جاسکتا ہے لیکن انسان اسے قبول کبھی نہیں کرتا اور جو قبول کر لیتے ہیں وہ انسان سے آدمی بن جاتے ہیں۔
یہ فلم گھٹن کے اس عہد میں برصغیر کے عام لوگوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ سلمان خان جیسا غیر سنجیدہ اور ’ہلڑ باز‘ قسم کا اداکار اپنے پیسے سے جو پہلی فلم بنائے گا وہ اتنا کمال کر جائے گی کہ جعلی دشمنی پر قائم اقتدار کے ستون ہی ہل جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ عظیم فلسفی ہیگل نے واضح کیا تھا کہ بظاہر حادثہ یا ’معجزہ‘ معلوم ہونے والے ایسے واقعات تاریخ کے گہرے تقاضوں کا اظہار ہوتے ہیں۔
برصغیر میں رائج سرمایہ دارانہ استحصالی ڈھانچے کے دوسرے بہت سے پہلوؤں کی طرح مذہبی و قومی منافرت کی واردات بھی اس خطے کے حکمرانوں کو برطانوی سامراج سے ورثے میں ملی ہے۔ دشمنی کے تمام تر فریب اور ناٹک کے باوجود یہ حکمران اندر سے ایک ہیں۔ نفرتوں پر مبنی ظلم، جبر اور استحصال کی ان سرکاروں کے خلاف برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر لڑنا ہوگا۔قومی اور مذہبی جنگیں ان حکمرانوں کے ہتھکنڈے ہیں۔ اپنی نجات کے لئے محنت کش عوام کو طبقاتی جنگ لڑنی اور جیتنی ہو گی۔

سرکاری و نیم سرکاری اعلامیہ

$
0
0

(سیلاب زدگان کے لیے)

ابھی اترا نہیں پانی
ابھی پانی بہالے جارہا ہے
ایک انتھک زندگی کی ماندپڑتی آب و تاب
مختلف عمروں کے خواب
اور تمناؤں کے گم گشتہ سراب
گھروں،گلیوں،محلوں اور بازاروں کے اندر
صورت خاشاک اڑتی آرزوئیں
حبس اگلتے کچے کمروں میں
جھلنگی چارپائیوں پر دھری بے زار نیند
آنگنوں میں کھیلتا بچپن۔۔۔ بہالے جارہا ہے
ابھی پانی بہالے جا رہا ہے
کچے رستوں اور شیشم
اور چناروں کی گھنی چھاؤں میں پلتی
دیسی گیندے کی طرح کی سادہ اور رنگیں محبت
اک ذرا دو چار دن خوش رہنے
اور آرام کرنے کی بہت مہنگی سی خواہش
آنسوؤں کی تیز اور نمکین بارش میں
بہالے جارہا ہے
ابھی پانی بہالے جارہا ہے
آنے والے موسموں کی ساری فصلیں
ہل، پنجالی، ڈھورڈنگر
اور جو کچھ روکھی سوکھی زندگی کی
شرم رکھنے کے لیے ہاری سے بن پڑتا ہے
وہ سب کچھ بہالے جارہا ہے
ابھی اترا نہیں پانی
ابھی کچھ دیر میں اترے گا پانی
ہر اک شے کی نشانی چھوڑکر اترے گا
اتر جائے گا جب پانی
گذر جائے گا جب پانی
تو پھر معدوم ہوتی زندگی کی
ہر نشانی کو دوبارہ زندگی دیں گے
نئی گلیاں! محلے! راستے! پگڈنڈیاں!
اورآنے والی زندگی کے خواب
مختلف عمروں کے خواب
زنگ آلودہ سے خواب
ایک ان تھک زندگی کی ماندپڑتی آب و تاب
اور تمناؤں کے صحرا میں چٹختے آئینوں جیسے سراب
جب قلعی ہوجائیں گے
تو پھر سے یہ سب عہد وپیماں
آپ لوگوں میں مساوی بانٹے جائیں گے
ابھی اترانہیں پانی، ابھی کچھ دیر ہے
زمیں کو خشک ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی ہے

ایوب خاور

جلاد

$
0
0

تو نے کب یہ سوچا ہے معصوم ہے کون اور قاتل کون
تو نے کب یہ دیکھا ہے کوئی چہرہ کیسا لگتا ہے
ایسے بھی ہوتے ہونگے جن سے سولی بھی شرماتی ہو
ایسے بھی جن سے دار کا تختہ سجا سجا سا لگتا ہے

جھوٹ کا عمامہ ہے کوئی یا پرچم ہے سچائی کا
تو کیا جانے کس کے منارۂ سر پہ کمند افگندہ ہے
وہ منصور کا حرفِ انا ہویا عیسیٰ کی شمعِ دعا
تجھ کو کیا نخچیر ترا کوئی مولا ہے یا بندہ ہے

درباروں سے ہو کر جب انصاف کا قاصد آتا ہے
سب کو خبر ہے بے گنہی کا اکثر جو انجام ہوا
میزانیں کن ہاتھوں میں تھیں جنبشِ ابرو کس کی تھی
کس پر اہلِ عدالت گرجے کس پر لطف اکرام ہوا

محفل محفل مقتل مقتل سب بسمل جلاد ہے کون
کوئی سمجھ کر بھی نہیں سمجھے کوئی اشارہ جانے ہے
نام ہے کس کا دام ہے کس کااور یہاں صیاد ہے کون
’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘

احمد فراز

ٹوبہ ٹیک سنگھ

$
0
0

| تحریر: سعادت حسن منٹو |

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے وہیں رہنے دئے گئے تھے جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا، یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا، جتنے ہندو سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دئے گئے۔
ادھر کا معلوم نہیں لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں، ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا’’مولبی ساب، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں‘‘۔ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔ اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا ’’سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘
دوسرا مسکرایا ’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔‘‘
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے، ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے، اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائد اعظم کہتے ہیں، اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے، یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے،اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا، جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا، ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہونگا‘‘۔
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھایک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا، اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہو گئی تھی،گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا، چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئے، اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔ جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ۔ ۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا، وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی؟ یورپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا۔ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑیگی۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین۔‘‘ دن کو سوتا تھا نہ رات کو، پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سویا، لیٹتا بھی نہیں تھا، البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں۔ مگر اس جسمانی تکلیف کے با وجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘
لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ ’’آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے۔ اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غیب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے، چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا، پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے۔ ۔ ۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے،اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ ۔ ۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے۔ ۔ ۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں،کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں، اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا،’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال، ست سری اکال۔‘‘
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک دوست جو مسلمان تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا۔ مگر سپاہیوں نے اسے روکا،’’یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے۔‘‘
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا’’میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی، میں نے کی، تمہاری بیٹی روپ کور۔ ۔ ۔‘‘
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا،بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا ’’بیٹی روپ کور‘‘۔
فضل دین نے رک رک کر کہا،’’ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ۔ ۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔‘‘
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ’’انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔ اور بہن امرت کور سے بھی۔ ۔ ۔ بھائی بلبیسر سے کہنا، فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے، ان میں سے ایک نے کٹا دیا ہے۔ دوسری کے کٹی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ میری لائق جو خدمت ہو، کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں۔ ۔ ۔ اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں‘‘۔
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟‘‘
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا ’’کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں تھا۔ ‘‘
بشن سنگھ نے پھر پوچھا ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟‘‘
’’ہندوستان میں، نہیں نہیں پاکستان میں‘‘۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ !‘‘
تبادلے کے تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟‘‘
متعلقہ افسر ہنسا ’’پاکستان میں۔‘‘
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے‘‘ اور زور زور سے چلّانے لگا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔ ‘‘
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا۔ مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا، اوندھے منہ لیٹا ہے، ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان، درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔

ضابطہ

$
0
0

(لیون ٹراٹسکی کے نام)
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے کہ بنوں دست و بازوئے قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے قفس کو بھی آشیانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں کے روپ کو لکھوں فروغِ حسنِ بہار
ہر اک دشمنِ جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو کاٹتی ہے سرِ حق وہ چوم لوں تلوار
خطا و جرم لکھوں اپنی بے گناہی کو
سحر کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو
مرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو دیکھتا ہوں، جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاعِ ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر
نہ دے سکے گی سہارا تمہیں کوئی تدبیر
فنا تمہارا مقدر، بقاء مری تقدیر

(حبیب جالب)


کسان

$
0
0

زمیں کی عظمت کے پاسبانو
اٹھو مرے ساتھیو، کسانو
لہو کے طوفان سے گزر لیں
اٹھو زمینوں پہ قبضہ کر لیں
غموں کو دیں گے خراج کب تک
کریں گے ہم احتجاج کب تک
جنوں کا سامان چاہتی ہے
حیات طوفان چاہتی ہے
اٹھو فصیلِ ستم گرا دیں
بغاوتوں کے دیئے جلا دیں
فسردہ چہروں سے داغ دھوئیں
فضا میں رعنائیاں سمو دیں
لبوں پہ جانِ خزاں اڑی ہے
بہار گجرے لئے کھڑی ہے

(بیدل حیدری)

پنڈت نہرو اور قائد اعظم جناح کے نام ایک طوائف کا خط

$
0
0

| تحریر: کرشن چندر، انتخاب: آصف رشید |

مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط لکھنا کس قدر معیوب ہے اور وہ بھی ایسا کھلا خط مگر کیا کروں حالات کچھ ایسے ہیں اور ان دونوں لڑکیوں کا تقاضا اتنا شدید ہے کہ میں یہ خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ خط میں نہیں لکھ رہی ہوں، یہ خط مجھ سے بیلا اور بتول لکھوا رہی ہیں، میں صدق دل سے معافی چاہتی ہوں، اگر میرے خط میں کوئی فقرہ ناگوار گزرے اسے میری مجبوری پر محمول کیجئے گا۔ بیلا اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں؟ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا تقاضا اتنا شدید کیوں ہے؟یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔ میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر آپ سے کسی جھوٹے رحم کی درخواست کرنے نہیں آئی ہوں۔ میں آپ کے درد مند دل کو پہچان کر اپنی صفائی میں جھوٹا افسانہ محبت نہیں گھڑناچاہتی۔ اس خط کے لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو طوائفیت کے اسرار و رموز سے آگاہ کروں مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہناہے۔ میں صرف اپنے متعلق چند ایسی باتیں بتانا چاہتی ہوں جن کا آگے چل کر بیلا اور بتول کی زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔
آپ لوگ کئی بار بمبئی آئے ہوں گے جناح صاحب نے بمبئی کو تو بہت دیکھا ہوگا مگر آپ نے ہمارا بازار کاہے کو دیکھا ہو گا۔ جس بازار میں میں رہتی ہوں وہ فارس روڈ کہلاتا ہے۔ فارس روڈ، گرانٹ روڈ اور مدن پورہ کے بیچ میں واقع ہے۔ گرانٹ روڈ کے اس پار لمنگٹم روڈ اور اوپر ہاؤس اور چوپاٹی میرین ڈرائیور اور ٖفورٹ کے علاقے ہیں جہاں بمبئی کے شرفارہتے ہیں۔ مدن پورہ میں اس طرف غریبوں کی بستی ہے۔ فارس روڈ ان دونوں کے بیچ میں ہے تاکہ امیر اور غریب اس سے یکساں مستفید ہو سکیں۔ گو فارس روڈ پھر بھی مدن پورہ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ناداری میں اور طوائفیت میں ہمیشہ بہت کم فاصلہ رہتاہے۔ یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے، اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑگڑاہٹ شب وروز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین، آتشک و سوزاک کے مارے ہوئے کانے، گنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان کر چلتے ہیں۔ غلیظ ہوٹل، سیلے ہوئے فٹ پاتھ، کچر ے کہ ڈھیروں پر بھنبھناتی ہوئی لاکھوں مکھیاں، لکڑیوں اور کوئلوں کے افسردہ گودام، پیشہ ور دلال اور باسی ہار بیچنے والے کوک شاتر اور ننگی تصویروں کے دوکان دار چینی حجام اور اسلامی حجام اور لنگوٹے کس کر گالیاں بکنے والے پہلوان، ہماری سماجی زندگی کا سارا کوڑاکرکٹ آپ کو فارس روڈ پر ملتا ہے۔ ظاہر ہے آپ یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئی شریف آدمی ادھر کا رخ نہیں کرتا، شریف آدمی جتنے ہیں وہ گرانٹ روڈ کے اس پار رہتے ہیں اور جو بہت ہی شریف ہیں۔ وہ ملبار ہل پر قیام کرتے ہیں۔ میں ایک بار جناح صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزری تھی اور وہاں میں نے جک کر سلام بھی کیا تھا بتول بھی میرے ساتھ تھی۔ بتول کو آپ سے (جناح صاحب) جس قدر عقیدت ہے اس کو میں کبھی ٹھیک طرح سے بیان نہ کر سکوں گی۔ خدا اور رسول کے بعد دنیا میں اگر وہ کسی کو چاہتی ہے تو وہ صرف آپ ہیں۔ اس نے آپ کو تصویر لاکٹ میں لگا کر اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ کسی بری نیت سے نہیں۔ بتول کی عمر ابھی 11 سال ہے، چھوٹی سی لڑکی ہی تو ہے وہ۔ گو فارس روڈ والے ابھی سے اس کے متعلق برے برے ارادے کر رہے ہیں مگر خیر وہ پھر کبھی آپ کو بتاؤں گی۔
تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی ہوں، فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دوکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری گلی کے موڑ پر میری دوکان ہے۔ لوگ تو اسے دوکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا آدمی ہیں آپ سے کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دوکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار کرتی ہو ں جس طرح بنیا، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سینیماوالا، کپڑے والا یا کوئی او ر دوکاندار بیوپار کرتا ہے اور ہر بیوپار میں گاہک کو خوش کرنے کے علاوہ اپنے فائدہ کا بھی سوچتا ہے۔ میرا بیوپار بھی اسی طرح کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں بلیک مارکیٹ نہیں کرتی اور مجھ میں اور دوسرے بیوپاریوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دوکان اچھی جگہ پر واقع نہیں ہے۔ یہاں رات تو کجا دن کو بھی لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اس اندھیری گلی میں لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے جاتے ہیں۔ شراب پی کر جاتے ہیں جہاں بھر کی گالیاں بکتے ہیں۔ یہاں بات بات پر چھرا زنی ہوتی ہے۔ دو ایک خون دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وقت جان ضیق میں رہتی ہے اور پھر میں کوئی اچھی طوائف نہیں ہوں کہ پون جا کے رہوں یاورلی پر سمندر کے کنارے ایک کوٹھی لے سکوں۔ میں ایک بہت ہی معمولی درجے کی طوائف ہوں اور اگر میں نے سارا ہندوستان دیکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر طرح کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھی ہوں لیکن اب دس سال سے اسی شہر بمبئی میں، اسی فارس روڈ پر، اسی دوکان میں بیٹھی ہوں اور اب تو مجھے اس دوکان کی پگڑی بھی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ حالانکہ یہ جگہ کوئی اتنی اچھی نہیں۔ فضا متعفن ہے کیچڑ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں اور خارش زدہ کتے گھبرائے ہوئے گاہکوں کی طرف کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں پھر بھی اس جگہ کی پگڑی مجھے چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔
اس جگہ میری دوکان ایک منزلہ مکان میں ہے۔ اس کے دو کمرے ہیں سامنے کا کمرہ میری بیٹھک ہے۔ یہاں میں گاتی ہوں، ناچتی ہوں گاہکوں کو کو رجھاتی ہوں پیچھے کا کمرہ باورچی خانے، غسل خانے اور سونے کے کمرے کا کام دیتا ہے۔ یہاں ایک طرف نل ہے ایک طرف ہنڈیا ہے اور ایک طرف ایک بڑا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے ایک اور چھوٹا سا پلنگ ہے۔ اس کے نیچے میرے کپڑوں کے صندوق ہیں۔ باہر والے کمرے میں بجلی کی روشنی ہے لیکن اندر والے کمرے میں بالکل اندھیرا ہے۔ مالک مکان نے برسوں سے قلعی نہیں کرائی نہ وہ کرائے گا۔ اتنی فرصت کسے ہے میں تو رات بھر ناچتی ہوں گاتی ہوں اور دن کو وہی گاؤ تکیے پر سر ٹیک کر سو جاتی ہوں، بیلا اور بتول کو پیچھے کا کمرہ دے رکھا ہے۔ اکثر گاہک جب ادھر منہ دھونے کے لیے جاتے ہیں تو بیلا اور بتول پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ جاتی ہیں جو کچھ ان کی نگاہیں کہتی ہیں میرا یہ خط بھی وہی کہتا ہے۔ اگر وہ میرے پاس اس وقت نہ ہوتیں تو یہ گنہگار بندی آپ کی خدمت میں یہ گستاخی نہ کرتی۔ جانتی ہوں دنیا مجھ پر تھو تھو کرے گی، جانتی ہوں شاید آپ تک میرا یہ خط بھی نہ پہنچے گا۔ پھر بھی مجبور ہوں یہ خط لکھ کے رہوں گی کیونکہ بیلا اور بتول کی مرضی یہی ہے۔ شاید آپ قیاس کر رہے ہوں کے بیلا اور بتول میری لڑکیاں ہیں۔ نہیں یہ غلط ہے میری کوئی لڑکی نہیں ہے ان دونوں لڑکیوں کو میں نے بازار سے خریدا ہے۔ جن دنوں ہندومسلم فساد زوروں پر تھا، گرانٹ روڈ، فارس روڈ اور مدن پورہ پر انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا۔ ان دنوں میں نے بیلا کو ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے کے عوض خریدا تھا۔ یہ مسلمان دلال اس لڑکی کر دہلی سے لایا تھاجہاں بیلا کے ماں باپ رہتے تھے۔ بیلا کے ماں باپ راولپنڈی میں راجہ بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے سامنے کی گلی میں رہتے تھے۔ متوسط طبقے کا گھرانہ تھا، شرافت اور سادگی گھٹی میں پڑی تھی۔ بیلا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور جب راولپنڈی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اس وقت بیلا چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ بارہ جولائی کا واقعہ ہے بیلا اپنے سکول سے پڑھ کر گھر آرہی تھی کہ اس نے اپنے گھر کے سامنے اور دوسرے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے ایک جم غفیر دیکھا۔ یہ لوگ مسلح تھے اور گھروں کو آگ لگا رہے تھے۔ لوگوں کو، ان کے بچوں کو، ان کی عورتوں کو گھروں سے باہر نکال کرانہیں قتل کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کرتے جاتے تھے۔ بیلا نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا۔ وحشی مسلمانوں نے اس کے پستان کاٹ کر پھینک دیئے تھے۔ وہ پستان جن سے ایک ماں، کوئی ماں، ہندو ماں یا مسلمان ماں، عیساعی ماں یا یہودی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور انسانوں کی زندگی میں، کائنات کی وسعت میں تخلیق کا ایک نیا باب کھولتی ہے وہ دودھ بھرے پستان اللہ اکبر کے نعروں کیساتھ کاٹ ڈالے گئے۔ کس نے تخلیق کے ساتھ اتنا ظلم کیا تھا۔ کسی ظالم اندھیرے نے ان کی روحوں میں یہ سیاہی بھر دی تھی۔ میں نے قرآن پڑھا ہے اور میں جانتی ہوں کہ راولپنڈی میں بیلا کے ماں باپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسلام نہیں تھاوہ انسانیت نہ تھی، وہ دشمنی بھی نہ تھی، وہ انتقال بھی نہ تھا، وہ ایک ایسی سعادت، بے رحمی بزدلی اور شیطانیت تھی جو تاریخ کے سینے سے پھوٹتی ہے اور نور کی آخری کرن کو بھی داغدار کر جاتی ہے۔
بیلا اب میرے پاس ہے، مجھ سے پہلے وہ داڑھی والے مسلمان دلال کے پاس تھی۔ بیلا کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ اپنے گھر میں ہوتی تو آج پانچویں جماعت میں داخل ہو رہی ہوتی۔ پھر بڑی ہوتی تو اس کے ماں باپ اس کا بیاہ کسی شریف گھرانے کے غریب سے لڑکے سے کر دیتے، وہ اپنا چھوٹا سا گھر بساتی، اپنے خاوند سے، اپنے ننھے ننھے بچوں سے، اپنی گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خشیوں سے، لیکن اس نازک کلی کو بے وقت خزاں آ گئی۔ اب بیلا بارہ برس کی نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی عمر تھوڑی ہے لیکن اس کی زندگی بہت بوڑھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جو ڈر ہے، انسانیت کی جو تلخی ہے یا اس کا جو لہو ہے، موت کی جو پیاس ہے قائداعظم صاحب شاید اگر آپ اس کو دیکھ سکیں تو شاید اس کا اندازہ کر سکیں۔ ان بے آسرا آنکھوں کی گہرائیوں میں اتر سکیں۔ آپ تو شریف آدمی ہیں۔ آپ نے شریف گھرانے کی معصوم لڑکیوں کو دیکھا ہو گا، ہندو لڑکیوں کو، مسلمان لڑکیوں کو، شاید آپ سمجھ جاتے کے معصومیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ ساری انسانیت کی امانت ہے، ساری دنیا کی میراث ہے جو اسے مٹاتاہے اسے دنیا کے کسی مذہب کا کوئی خدامعاف نہیں کر سکتا۔ بتول اور بیلا دونوں سگی بہنوں کی طرح میرے ہاں رہتی ہیں۔ بتول اور بیلا سگی بہنیں نہیں ہیں۔ بتول مسلمان لڑکی ہے، بیلا نے ہندو گھر میں جنم لیا۔ آج دونوں فارس روڈ پر ایک رنڈی کے گھر میں بیٹھی ہیں۔ اگر بیلا راولپنڈی سے آئی ہے تو بتول جالندھر کے ایک گاؤں کھیم کرن کے ایک پٹھان کی بیٹی ہے۔ بتول کے باپ کی سات بیٹیاں تھیں، تین شادی شدہ اور چار کنواریاں، بتول کا باپ کھیم کرن میں ایک معمولی کاشتکار تھا۔ غریب پٹھان لیکن غیور پٹھان جو دیوں سے کھیم کرن میں آ کے بس گیاتھا۔ جاٹوں کے اس گاؤں میں یہی تین چار گھر پٹھانوں کے تھے۔ یہ لوگ جس امن و آتشی سے رہتے تھے شاید اس کا اندازہ پنڈت جی آپ کواس امر سے ہوگاکہ مسلمان ہونے پر بھی ان لوگوں کو اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ لوگ گھر میں چپ چاپ اپنی نماز ادا کرتے، صدیوں سے جب سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے عنان حکومت سنبھالی تھی کسی مومن نے اس گاؤں میں اذان نہ دی تھی۔ ان کا دل عرفان سے روشن تھا لیکن دنیاوی مجبوریاں اس قدر شدید تھیں اور پھر رواداری کا خیال اس قدر غالب تھا کہ لب وا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ بتول اپنے باپ کی چہیتی لڑکی تھی۔ ساتوں میں سب سے چھوٹی تھی، سب سے پیاری، سب سے حسین، بتول اس قدر حسین ہے کہ ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی ہے، پنڈت جی آپ خود کشمیری النسل ہیں فن کا ر ہو کر یہ بھی جانتے ہیں کہ خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ یہ خوبصورتی آج میری گندگی کے ڈھیر میں گڈ مڈ ہو کر اس طرح پڑی ہے کہ اس کا پرکھ کرنے والا کوئی شریف آدمی اب مشکل سے ہی ملے گا، اس گندگی میں گلے سڑے مارداڑی، گھن، مونچھوں والے ٹھکیدار، ناپاک نگاہوں والے چور بازاری ہی نظر آتے ہیں۔ بتول بالکل ہی ان پڑھ ہے۔ اس نے صرف جناح صاحب کا نام سنا تھا۔ پاکستان کو ایک اچھا تماشہ سمجھ کر اس نے نعرے لگائے تھے۔ جیسے تین چار برس کے ننھے بچے گھر میں انقلاب زندہ بادکرتے پھرتے ہیں۔ گیارہ بر س کی ہی تو ہے وہ ان پڑھ بتول۔ وہ چند دن ہی ہوئے میرے پاس آئی ہے۔ ایک ہندو دلال اسے میرے پاس لایا تھا۔ میں نے اسے پانچ سو روپے میں خرید لیا۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ ہاں لیڈی ڈاکٹر نے مجھ سے بہت کچھ کہا ہے کہ اگر آپ اسے سن لیں تو شاید پاگل ہو جائیں۔ بتول بھی اب نیم پاگل ہے اس کے باپ کو جاٹوں نے اس بے دردی سے مارا ہے کہ ہندو تہذیب کے پچھلے چھ ہزار برس کے چھلکے اتر گئے ہیں اور انسانی بربریت اپنے وحشی ننگے روپ میں سب کے سامنے آگئی ہے۔ پہلے تو جاٹوں نے اس کی آنکھیں نکال لیں۔ پھر اس کے منہ میں پیشاب کیا، پھر اس کے خلق کو چیر کر اس کی آنتیں تک نکال ڈالیں۔ پھر اس کی شادی شدہ بیٹیوں کے ساتھ منہ کالا کیا۔ اسی وقت ان کے باپ کی لاش کے سامنے ریخانہ، گل درخشاں، مرجانہ، سوہن اور بیگم ایک ایک کر کے وحشی انسان نے اپنے مندر کی مورتیوں کو ناپاک کیا۔ جس نے انھیں زندگی عطا کی، جس نے انھیں لوریاں سنائی تھیں، جس نے ان کے سامنے شرم و عجز سے اور پاکیزگی سے سر جھکا دیا تھا۔ ان تمام بہنوں، ماؤں اور بہوؤں کے ساتھ زنا کیا۔ ہندو دھرم نے اپنی عزت کھو دی تھی اپنی رواداری تباہ کر دی تھی، اپنی عظمت مٹا دی تھی۔ آج راگ وید کا ہر منتر خاموش تھا۔ آج گرنتھ صاحب کا ہر دوہا شرمندہ تھا۔ آج گیتا کا ہر اشلوک زخمی تھا۔ کون ہے جو میرے سامنے اجنتا کی مصوری کا نام لے سکتا ہے، اشوک کے کتبے سنا سکتا ہے، ایلورا کے صنم زادوں کے گن گاسکتا ہے۔ بتول کے بے بس بھنچے ہوئے ہونٹوں، اس کی بانہوں پر وحشی درندوں کے دانتوں کے نشان اور اس کی بھری ہوئی ٹانگوں کی ناہمواری میں تمہاری اجنتا کی موت ہے۔ تمہارے ایلورا کا جنازہ ہے۔ تمہاری تہذیب کا کفن ہے۔ آؤ آؤ میں تمہیں اس خوبصورتی کو دکھاؤں جو کبھی بتول تھی۔ اس متعفن لاش کو دکھاؤں جو آج بتول ہے۔ جذبے کی رو میں بہہ کر میں بہت کچھ کہہ گئی۔ شاید یہ سب مجھے نہ کہناچاہیے تھا۔ شاید اس میں آپ کی سبکی ہے۔ شاید اس سے زیادہ ناگوار باتیں آپ سے اب تک کسی نے نہ کی ہوں گی نہ سنائی ہوں گی۔ شاید آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ شاید تھوڑا بھی نہیں کر سکتے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں آزادی آگئی ہے۔ ہندوستان میں اور پاکستان میں اور شاید ایک طوائف کو بھی اپنے رہنماؤں سے پوچھنے کایہ حق ضرور ہے کہ اب بیلا اور بتول کا کیا ہوگا۔
بیلا اور بتول دولڑکیاں ہیں، دو قومیں ہیں، دو تہذیبیں ہیں۔ دو مندر اور مسجد ہیں۔ بیلا اور بتول آج کل فارس روڈ پر ایک رنڈی کے ہاں رہتی ہیں جو چینی حجام کی بغل میں اپنی دوکان کا دھندہ چلاتی ہے۔ بیلا اور بتول کو یہ دھندہ پسند نہیں۔ میں نے انہیں خریدا ہے۔ میں چاہوں تو ان سے یہ کا م لے سکتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں میں یہ کام نہیں کروں گی جو راولپنڈی اور جالندھر نے ان سے کیا ہے۔ میں نے انہیں اب تک فارس روڈ کی دنیاسے الگ تھلگ رکھاہے۔ پھر بھی جب میرے گاہک پچھلے کمرے میں جا کراپنا منہ ہاتھ دھونے لگتے ہیں، اس وقت بیلا اور بتول کی نگاہیں مجھ سے کہنے لگتی ہیں۔ مجھے ان نگاہوں کی تاب نہیں۔ میں ٹھیک طرح سے ان کا سندیسہ بھی آپ تک نہیں پہنچا سکتی ہوں۔ آپ کیوں نہ خود ان نگاہوں کا پیغام پڑھ لیں۔ پنڈت جی میں چاہتی ہوں کہ آپ بتول کو اپنی بیٹی بنالیں۔ جناح صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ بیلا کو اپنی دختر نیک اختر سمجھیں۔ ذرا ایک دفعہ انہیں اس فارس روڈ کے چنگل سے چھڑا کے اپنے گھرمیں رکھیں اور ان لاکھوں روحوں کا نوحہ سنئے، یہ نوحہ جو نواکھالی سے راولپنڈی تلک اور بھرت پور سے بمبئی تک گونج رہا ہے۔ کیا صرف گورنمنٹ ہاؤس میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ آواز سنیں گے آپ؟

آپ کی مخلص: فارس روڈ کی ایک طوائف

جواں آگ!

$
0
0

یہ جواں آگ جو اس شہر میں جاگ اٹھی ہے
تیرگی دیکھ کے اس آگ کو بھاگ اٹھی ہے
کب تلک اس سے بچاؤ گے تم اپنے داماں
یہ جواں آگ جلا دے گی تمہارے ایواں
یہ جواں خون بہایا ہے جو تم نے اکثر
یہ جواں خون نکل آیا ہے بن کر لشکر
گولیوں سے یہ جواں آگ نہ بجھ پائے گی
گیس پھینکو گے تو کچھ اور بھی لہرائے گی
یہ جواں خون سیہ رات نہ رہنے دے گا
دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات نہ رہنے دے گا
یہ جواں خون ہے محلوں پہ لپکتا طوفاں
اس کی یلغار سے ہر اہل ستم ہے لرزاں
یہ جواں فکر تمہیں خون نہ پینے دے گی
غاصبو! اب نہ تمہیں چین سے جینے دے گی
قاتلو! راہ سے ہٹ جاؤ کہ ہم آتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں لئے سرخ علم آتے ہیں

حبیب جالب

افسانہ: آئینہ

$
0
0

|تحریر: پارس جان|

دیر تک مخملی بستر پر بے قرار کروٹیں لینے کے بعدوہ ایک گونج دار چینخ کے ساتھ ایک دم اٹھ بیٹھی۔یہ وہی خواب تھا جو کئی ماہ سے اس کی نیندوں میں خلل ڈال رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک پر پڑی تو وہ ایک دفعہ پھر چلائی اور برق رفتاری سے واش روم کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ مگر اچانک اس کا سر چکرایا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ ’اوہ شٹ‘ کہہ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔ اس نے اسی ٹیبل پر پڑا پانی کا جگ ایک ہی سانس میں خالی کر دیا اور کچھ دیر بے حس و حرکت لیٹی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اٹھی اور ایک رعب دار آواز لگائی۔

کلثوم۔۔۔۔کلثوم۔۔۔کہاں مر جاتی ہے یہ

ایک منٹ بعد لاغر جسم اور ممنون آنکھوں والی ایک عمر رسیدہ خاتون ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔

جی میڈم صاحبہ

کہاں مر گئی تھی تو میں کب سے آوازیں لگا رہی ہوں۔

جی میڈم صاحبہ میں مہمانوں کے واسطے شام کے کھانے کا اہتمام کرنے کے لئے خانساماں کو ضروری سامان کی فہرست سمجھا رہی تھی۔

تجھے درجنوں بار کہا ہے کہ مجھے جگا دیا کر۔۔جگایا کیوں نہیں ۔۔مجھے اتنی دیر ہو گئی۔

جی میڈم صاحبہ میں ضرور جگا دیتی لیکن کمرے میں آنے سے پہلے آپ نے ہی تو مجھے بلا کر تاکید کی تھی کہ کوئی آپ کو ڈسٹرب نہ کرے۔

اچھا! میں نے؟۔۔۔چلو چھوڑو۔۔تم جلدی سے ناشتہ لگواؤ میں تیار ہو کر آتی ہوں۔

تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب پنکی تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں پہنچی تو ناشتہ تیار تھا۔اس نے ناشتہ کرنے سے پہلے بالکنی میں جا کر نیچے نظر دوڑائی تو اسے اپنی گاڑی نظر نہ آئی۔۔وہ پھر زور سے چلائی۔۔۔سعید سعید۔۔

کلثوم نے تحمل سے کہا ۔۔میڈم صاحبہ سعید تو ضروری سامان لینے مارکیٹ گیا ہے۔۔

میں نے اسے سمجھایا بھی تھا کہ میری گاڑی کو کبھی ہاتھ بھی نہ لگائے۔۔۔اس کی خیر نہیں۔۔

اتنے میں فربہ جسم والی ایک انتہائی خوش شکل خاتون ،جو اپنی عمر سے بہت چھوٹی دکھائی دے رہی تھی، انتہائی دلجویانہ مسکراہٹ چہرے پر بکھیرے تیز تیز چلتی ہوئی ڈائننگ روم میں نمودار ہوئی۔یہ پنکی کی ماں تھی۔
بیٹا کیوں اتنا غصہ ہو رہی ہوبھلا۔تمہاری گاڑی سعید تھوڑے ہی لے کر گیا ہے۔۔کیا تمہیں سچ مچ کچھ یاد نہیں؟

کیا مطلب؟ پنکی نے نظریں چراتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

ارے بھائی تم اپنی گاڑی سمیر کے ہاں چھوڑ آئی تھی۔۔ رات کو تمہاری حالت ٹھیک نہیں تھی تو وہی تو صبح چھوڑ کر گیا تھا تمہیں ۔۔۔شاید پانچ یا چھ بج رہے ہونگے۔۔۔

تو میں پاپا کی گاڑی لے جاتی ہوں ۔۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔سرکل میں پہنچنا ہے۔۔

آج منسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے میٹنگ بلائی ہے تمہارے پاپا ابھی ابھی تو نکلے ہیں۔۔ تم نے دیکھا نہیں انکی گاڑی بھی تو نہیں ہے نیچے ۔

پنکی کے بابا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں سینئر بیورو کریٹ ہیں۔

تو اب میں کیا کروں؟ پنکی نے مایوس کن لہجے میں برجستہ تشویش کا اظہار کیا۔

کوئی بات نہیں بیٹا۔تم میری گاڑی لے جاؤ۔۔سعید تمہیں ڈراپ کر کے واپس آ جائے گا اور مجھے جم چھوڑ کر بعد میں پھر تمہیں پک کر لے گا ،جب تم کہو،اور پھر تمہیں سمیر کے ہاں چھوڑ آئے گا،وہاں سے تم اپنی گاڑی لے آنا۔

او تھینک یو سو مچ ماما۔۔ پنکی نے جلدی جلدی کافی کی آخری گھونٹ اندر انڈیلی اور ماما کے گال پر بوسہ دے کرتیزی سے جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف لپکی۔۔

ماما نے ایک بار پھر ٹوکا۔۔ارے بات تو سنو سعید کو تو آ جانے دو۔

اوہو مجھے دیر ہو رہی ہے۔اس کے بعد دونوں ماں بیٹی آئندہ ہفتے پنکی کے کزن کی شادی کے لئے شاپنگ اور دیگر لوازمات پر گفت و شنید کرنے لگے۔۔کچھ ہی منٹوں میں گاڑی کا ہارن بجا۔

کلثوم خانساماں کو کہو کہ نیچے آ کر سعید سے سامان لے لے مجھے جلدی ہے۔

ماما نے ایک دفعہ پھر پیچھے سے پنکی کو آواز دی ۔۔بیٹا دیر مت کرنا۔۔سائیں کو اچھا نہیں لگے گا۔۔ تمہیں پتہ ہے نا وہ اور تمہارے پاپا دونوں تمہاری وجہ سے آجکل بہت پریشان ہیں۔جلدی آنا بیٹا۔اور ادھر ادھر نہ نکلنا کہیں حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔

اوکے ماما۔۔ڈونٹ وری ۔۔میں آ جاؤنگی ان کے آنے سے پہلے ہی۔۔

سیڑھیاں اترنے سے قبل اس نے انتہائی مدھر آواز میں کسی کو پکارا۔۔۔ڈیانا۔۔ڈیانا۔۔ڈیانا

اتنے میں ایک چمکیلی آنکھوں والی سفید رنگ کی خوبرو کتیا جس کے جسم پر مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے گول گول قدرتی نشانات تھے، جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے، دم ہلاتی ہوئی اور آہستہ آہستہ مدھر سی آواز میں کچھ کہتی ہوئی وارد ہوئی اور پنکی نیچے جھکی تو دونوں ایسے گلے ملے جیسے برسوں بعد قریبی دوست ملتے ہیں۔ 

کیسی ہو میری ڈیانا؟چلیں؟اور پھر وہ دونوں تقریباً دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے اترے۔

سعید خانساماں کو سامان دے کر جانے کے لیئے تیار تھا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولاتو ڈیانا چھلانگ لگا کر پچھلی نشست پر براجمان ہو گئی ۔اور انتہائی شریر مسکراہٹ کے ساتھ پنکی کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ آپ دوسری طرف سے آؤ۔۔

پنکی نے بھی مسکراہٹ کا جواب طمانیت بھری مسکراہٹ سے دیا اور سعید نے بھاگ کر دوسری طرف سے دروزاہ کھولا۔

اندر بیٹھتے ہوئے وہ ایک بار پھر چلائی ۔۔اب یہ ظہور کہاں مر گیا۔۔

ظہورایک ادھیڑ عمر تنومند سانولے رنگ کا بلوچ تھا جو پنکی کا گارڈ تھا۔

ابھی پنکی کے منہ سے اس کا نام نکلا ہی تھا کہ وہ فوراً آ ٹپکا اور ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر اپنی بندوق سمیت بیٹھ گیا۔

تم بہت دیر کر دیتے ہو ظہور۔۔غلطی ہو گئی میڈم صاحبہ۔۔

سعید اب چلدی چلو ہمیں دو بجے سے پہلے صدر پارک پہنچنا ہے۔

مگر میڈم صاحبہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کونسے راستے سے چلیں ،آج جگہ جگہ مولویوں نے دھرنے، جلوس اور جلاؤ، گھیراؤ کر رکھا ہے، کہیں کوئی گڑ بڑ ہی نہ ہو جائے۔

او ہاں ایک تو ان جاہلوں نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔خیر تم دیکھ لو کونسا رستہ مناسب رہے گا۔ ظہور تم ہی کچھ بتاؤ۔
ظہور نے اپنے مخصوص لہجے میں ہاتھوں کے اشاروں کی مدد سے سعید کو سمجھانا شروع کیا اور وہ معمول کے رستے سے ہٹ کر قدرے طویل مگر محفوظ راستے پر نکل پڑے۔

پنکی نے مزید دیر ہو جانے کی فرسٹریشن نکالنے کے لئے ملاؤں پر مہذب قسم کی لعن طعن شروع کر دی۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ ظہور اور سعید دونوں پھٹ پڑے اور انہوں نے ملاؤں کوآڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا مگر فرق یہ تھا کہ ان کا لہجہ اور الفاظ دونوں قدرے غیر مہذب تھے۔

پنکی چونک گئی کیونکہ وہ اس کے بالکل مختلف ردِ عمل کی توقع کر رہی تھی اور شاید اس نے یہ موضوع اسی لئے شروع کیا تھا کہ ان دونوں کو تکلیف ہو گی۔ نہ جانے کیوں اپنے سے کم رتبہ لوگوں کو ٹیز کر کے اسے لاشعوری تسکین حاصل ہوتی ہے اور جب وہ کم رتبہ مرد ہوں تو اس کو اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔اس نے ڈیانا کو گود میں لے کر دو دفعہ چوما۔

اس غیر متوقع ردِ عمل کے بعد اس کا تجسس مزید بڑھ گیا اور اس نے حیرت سے کہا تم لوگ بھی ان ملاؤں کو پسند نہیں کرتے؟دونوں بیک وقت بول پڑے۔ توبہ کریں میڈم صاحبہ۔پھر سعید نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ یہ سب دو نمبر لوگ ہیں ہم نے تو کئی سال ان کو سانپوں کی طرح دودھ پلایا اور انہوں نے ہمیشہ ہمیں ہی ڈنک مارے۔ سعید کا تعلق شمالی پشتونخواہ کے کسی گاؤں سے تھا۔ ہم تو اب باز آئے انکی۔۔۔پنکی نے اس کی بات کاٹی اور ظہور سے کہا کہ تم بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے، تم اور تمہارے لوگ تو ان کو پسند کرتے ہیں نا۔۔ ابھی حالیہ الیکشنزمیں تم لوگوں نے تو انہی مولویوں کو کامیاب بھی کروایا ہے نا؟ ظہور بے ساختہ ہنس پڑا۔۔اسکی یہ ہنسی پنکی کی انانیت پر آسمانی بجلی کی طرح گری۔ میڈم صاحبہ الیکشنز تو بس ڈرامہ ہی ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ کچھ لوگوں نے تو پہلے سے مسلط جرائم پیشہ افراد سے جان چھڑانے کے لیئے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا تھا مگر اب وہ بھی پچھتا رہے ہیں۔میری بیوی کو ہی دیکھ لیں ۔اس نے میرے سے لڑ کر ان کو ووٹ دیا تھا اورشاید کچھ سو روپے چندا بھی، مگر کل جب انہوں نے ہمارے محلے کے انتہائی شریف بزرگ مہندر کمار کی دکان جلائی تو وہ رات کو اللہ سے معافی مانگ رہی تھی اور ان مولویوں کو بد دعائیں دے رہی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ عین اسی وقت میرے چھوٹے بیٹے نے بتا یا کہ اس نے کل ایک دوست کے موبائل میں ایک ویڈیو دیکھی جو شاید ملتان کی تھی اور اس میں کچھ مشتعل ملاں ایک بس کو آگ لگا کر لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگا رہے تھے، ان میں مولوی نصیر پیش پیش تھا۔ 

اب یہ مولوی نصیر کون ہے؟ پنکی نے قدرے تیز لہجے میں پوچھا۔وہ اگرچہ کبھی ان دو ٹکے کے لوگوں کے منہ نہ لگتی تھی مگر آج وہ خود کو روک نہیں پا رہی تھی۔ڈیانا نے بھی ایک بڑی متفکرانہ سی آواز نکالی جیسے وہ بھی یہ جاننے کے لئے بیتاب ہو۔

مولوی نصیر ہماری مسجد کا امام تھا، جس نے کئی بچوں کے ساتھ مسجد میں زیادتی کی ، جب اہلِ علاقہ کو پتہ چلا تو یہ فرار ہو گیا۔ آجکل سنا ہے جنوبی پنجاب کے کسی گاؤں میں امامت کر رہا ہے۔ خدا جانے سدھر ہی گیا ہو۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ میری بیوی نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا اور ایسی ایسی بد دعائیں دیں کہ خدا کی پناہ۔ باقی سارا علاقہ بھی بہت غصے میں ہے۔ اگر حکومت مدد کرے تو لوگ ان سب مولویوں کو علاقہ سے نکال کر ان کی مسجدوں اور مدرسوں کو تالے لگا دیں۔

پنکی بوکھلا گئی ۔اور اس نے بہت سا پانی ایک ہی سانس میں پیا۔ اسے اپنے پاپا سے دو دن پہلے رات کے کھانے سے قبل ہوئی بات چیت یاد آ رہی تھی، جب اس کے پاپا ٹی وی پر ملاؤں کے ممکنہ ردِ عمل کی خبرپر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ختم نبوت بہرحال حساس معاملہ ہے، احتجاج تو ہونا چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ غریب لوگ موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، لوٹ مار کرتے ہیں، ان جاہلوں کو اسلام کا پتہ وتہ تو کچھ ہوتا نہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ دو جاہل جو اس کے سامنے بیٹھے فرفر ملاؤں کو کھری کھری سنا رہے ہیں ، ان کی جہالت کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ظہور مسلسل بولے جا رہا تھا۔ پنکی نے اسے ٹوک کر پھر پوچھا لیکن میں نہیں مانتی یہ سب ۔۔ تمہارے علاقے کے زیادہ تر لوگ تو ان ملاؤں کے حمایتی ہی ہوں گے۔ ظہور پھر تیز تیز بولنے لگا۔ارے نہیں میڈم صاحبہ ایسا نہیں ہے اب تو لوگوں کی اکثریت ان سے نفرت کرتی ہے۔ پتہ نہیں اوپر بیٹھے لوگ کیوں ان مولویوں کو ہمارے اوپر بٹھا کر رکھتے ہیں۔ میڈم صاحبہ میں نے خود کئی دفعہ پولیس اور رینجرز کی بہت سی گاڑیاں اپنے مدرسے رحیمیہ حسینیہ کے دروازے پر دیکھی ہیں ، جن میں بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ میڈم صاحبہ میں آ پ کو کیسے سمجھاؤں۔۔

پنکی کی برداشت جواب دے گئی اور وہ پھٹ پڑی۔کیا کہا تم نے ۔۔ اب تم مجھے سمجھاؤ گے۔ جاہل کہیں کے، بات کرنے کی تمیز نہیں۔سعید گاڑی روکواور اس بڑے دانشور سے کہو کہ ٹھنڈا پانی اور کچھ جوس وغیرہ لے لے یہاں سے۔

پنکی نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ دو دن پہلے ہونے والی موسلا دھار بارش کے باعث سب کچھ دھلا دھلا سا نظر آ رہا تھا۔ اجلے اجلے مناظر اسے بالکل اچھے نہ لگے۔ اسے اچانک سب دھندلا نظر آنے لگا۔جیسے اس کے جسم کی ساری میل کچیل اس کی آنکھوں میں جمع ہو گئی ہو۔ چند منٹ وہ اسی اعصاب شکن کیفیت میں مبتلا رہی ، جہاں سے اسے سعید نے بریک لگا کر نکالا۔ وہ پہنچ گئے تھے۔ مگر پنکی عجیب ہچکچاہٹ سے گاڑی سے اتری جیسے وہ کسی غلط مقام پر پہنچ گئے ہوں۔

پارک میں طے شدہ جگہ پر آج توقع سے کافی کم لوگ دائرے کی شکل میں موجود تھے۔ ایک انتہائی بے تکلف آواز پنکی کی پتھرائی ہوئی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ارے پنکی تم آ گئی۔۔ہم سمجھ رہے تھے شاید حالات کی وجہ سے آج تم نہ آؤ،نہیں سوری یار میں تھوڑ الیٹ ہو گئی۔پنکی نے اپنے آپ کو حسبِ موقع ذہنی کیفیت میں لانے کی کوشش کی اور دائرے میں ایک طرف خود کو سمیٹتے ہوئے بیٹھ گئی۔ ڈیانا بھی اس کے ساتھ ہی تھوڑا سا پیچھے ہو کر بیٹھ گئی۔ظہور ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ساتھ بیٹھی ایک لڑکی نے اسے بھی بیٹھنے کا اشارا کیا تو پنکی یکدم بولی نہیں نہیں اسے کھڑا رہنے دو یہ یہاں بیٹھ کر کیا کرے گا۔۔ ویسے بھی اس کی ڈیوٹی ہی ایسی ہے۔ پنکی کے اس ردِ عمل پر سب چونک گئے۔ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ڈر رہی ہو کہ یہاں بیٹھ کر ظہور ان کے سرکل کا مرکزی کردار ہی نہ بن جائے۔سامنے بیٹھے ایک لڑکے نے کہا پنکی ایسے آکورڈ لگتا ہے۔ یا تو اسے کہو کہ گاڑی میں ویٹ کر لے یا پھر اسے بیٹھنے دو۔ یہ ارم کا گارڈ طارق بھی تو دیکھو یہیں بیٹھا ہے۔ پنکی نے بات ختم کرنے کے ارادے سے کہا، چلو بیٹھ جائے میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی کہ یہ بور نہ ہو جائے، کھڑا رہے گا تو اس کا دھیان ادھر ادھر لگا رہے گا۔ اس نے ظہور کو کہا تھوڑا پیچھے ہو کر بیٹھ جاؤاور ساتھ ہی اس نے ڈیانا کو پکڑ کر آگے کیا، اس کا ایک بوسہ لیا اور اسے اپنے بالکل ساتھ بٹھا لیا۔

اس نشست میں تقریباً انیس بیس لوگ موجود تھے جن میں زیادہ تر پوش علاقوں کے لڑکے لڑکیاں تھے مگر چند ایک متوسط طبقے کے نوجوان لڑکے، جو مختلف سرکاری یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے، وہ بھی یہاں موجود تھے، جن کی آنکھوں سے ان کا احساسِ محرومی واضح طور پر ٹپک رہا تھا۔ اور وہ مہنگی ترین خوشبوئیں لگائے اور زرق برق مغربی لباس میں بنے ٹھنے ان خواتین و حضرات کو ایسے ہی رال ٹپکائے دیکھ رہے تھے جیسے وہ اکثر سپر مارکیٹ میں بڑی بڑی دکانوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈسپلے پر لگے نیم عریاں جدید فیشن ڈریسز پتلون یا شو پیسوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات کو درست طور پر سمجھنے کی وجہ سے ان پوش علاقوں کے خواتین و حضرات کا احساسِ برتری کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے ان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا، آپ لوگ ضرور ہمارے سرکل میں آیا کریں ،آپ ہی کے دم سے تو ہمارا سرکل چل رہا ہے۔

ایک لڑکی پنکی سے کہنے لگی، پنکی آج ہم نے ’مغربی جمہوریت اور تحریکِ نسواں‘ پر بات کرنی تھی مگر ہم نے ملکی حالات کے تناظر میں آ ج کا ایجنڈا تبدیل کر دیا ہے اور آج ہم ’مذہبی جنونیت اور سیکولرازم‘ کو زیرِ بحث لائیں گے ۔مگر ہمارا دوسرا ایجنڈا وہی ہو گا یعنی ہم اگلے ماہ گولڈن ہوٹل میں ہونے والی خواتین کے حقوق کی کانفرنس کے انتظامات اور تیاریوں کا جائزہ لیں گے اور ذمہ داریاں تقسیم کریں گے۔

پنکی نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا تو سرمد نے موضوع پر بات کرنا شروع کی۔ سرمد ایک نامور پراپرٹی ڈیلر کا بیٹا ہے جوابھی حال ہی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹا ہے اور کسی پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ وہ مسلسل بولتا رہا،اس کا مدعا یہی تھا کہ بنیاد پرست ریاست پر قبضہ کر سکتے ہیں ، وہ تاریخی حوالے اور انگریزی اخبارات کی رپورٹس بھی ڈسکس کر رہا تھا ۔ پنکی غور سے اسے سنتی رہی۔ اچانک اس نے مڑ کر ظہور کو دیکھا جو اپنی ہی دھن میں مگن بے وجہ مسکرا رہا تھا۔ پنکی کو نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ وہ سرمد کا تمسخر اڑا رہا ہے اور کہیں نہ کہیں اسے یہ تمسخر حق بجانب بھی محسوس ہوا۔ اسے ایسا لگا کہ ظہور سرمد سے بہتر لیکچر دے سکتا ہے۔ پھر ایک دم وہ بوکھلا سی گئی اور اسے اپنے اس خیال پر گھن آنے لگی۔ اس نے اپنی خجالت ختم کرنے کے لئے زور سے کھانسا اور ظہور کو آواز دی ، وہ پانی کی بوتلیں اور جوس کہاں ہے؟ میڈم وہ تو گاڑی میں ہی ہے۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ،وہ اس لئے خریدے تھے کہ گاڑی میں پڑے رہیں ، جاؤ لے کر آؤ۔ اوہو میڈم صاحبہ سعید تو واپس گھر چلا گیا تھا، اسے میڈم کو جم چھوڑنا تھا۔ پنکی اور بھی زیادہ غصے سے بولی، جاؤ تو پھر سامنے والی مارکیٹ سے اور لے کر آؤ ۔۔گدھا کہیں کا۔ ظہور جلدی جلدی باہر کی طرف گیا اور ڈیانا بھی اچانک اٹھی اور ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔

دوسرے ایجنڈے پر سب لوگ بڑھ چڑھ کر بات کر رہے تھے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ زیادہ ہی پر عزم تھے جیسے وہ اس ممی ڈیڈی کلاس کو اور بالخصوص خواتین کو یہ یقین دلا دینا چاہتے ہوں کہ ہم بھی آپ ہی میں سے ہیںیا آپ ہی جیسے ہیں۔ ان کی شناخت کا بحران ہی انہیں اس حلقے میں سرگرم رکھے ہوئے تھا۔ پنکی نے اپنی باری پر عجیب و غریب گفتگو کرنا شروع کر دی۔ وہ ایجنڈے سے ہٹ گئی اور آئندہ ماہ ہونے والی تقریب پر بات کرنے کی بجائے خواتین کے عمومی حالات پر بات کرنے لگی۔ وہ آج ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مردوں پر برس رہی تھی۔ سب لوگوں کو کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ اس نے جب کہا کہ ’یہاں خواتین کے تمام مسائل مردوں کی غیر فطری اجارہ داری کی وجہ سے ہی ہیں ، خواتین کو چاہیے کہ وہ مردوں پر اپنا انحصار کم سے کم کر دیں اور ان سے جتنا ہو سکے دور ہی رہیں‘، تو بائیں طرف بیٹھا ایک نوجوان برجستہ ہنس پڑا۔ پنکی نے غصے سے اسے دیکھا مگر اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کی باتوں پر نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہنس رہا تھا۔ اس کی نظر پنکی پر نہیں بلکہ پنکی کے پیچھے ڈیانا پر تھی جو پارک میں گھومنے والے کسی آوارہ کتے کے ساتھ کھلے عام رنگ رلیاں منانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب پنکی نے مڑ کر یہ منظر دیکھا تو برجستہ سب لوگ ہنس پڑے۔ پنکی نے دل ہی دل میں سوچا کاش یہ سب واقعی ڈیانا پر ہی ہنس رہے ہوتے۔ اس کا رنگ ہر لمحے تبدیل ہو رہا تھا۔ سرمد نے کہا کوئی نہیں اگنور کرو ۔۔ ہم لوگ تو ویسے بھی شخصی آزادی کے قائل ہیں۔ پنکی کو یہ ہنسی اور جملہ دونوں تازیانے محسوس ہوئے ۔ اسکے بعد اسکو اندازہ ہوا کہ وہ بالکل غیر متعلقہ گفتگو کر رہی تھی اور آج اس کا خود پر قابو نہیں تھا۔ اس نے بات گھمائی اور تقریب کے انعقاد کے لیئے اپنی ذمہ داریوں پر بات کرنی شروع کر دی۔

بعد ازاں سب لوگوں نے اپنے اپنے ذمے کام لیا اور سرکل اختتام پذیر ہوا۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ ذمہ داریاں دی گئیں، جس پر وہ اتراتے ہوئے خوش خوش وہاں سے چلے گئے۔

وہاں سے اٹھتے ہوئے ایک لڑکی نے پنکی سے کہا کیا بات ہے آج تم ٹھیک نہیں لگ رہیں۔۔ وہ جلدی سے بولی۔۔ ایسی کوئی بات نہیں اصل میں آج گھر مہمان آنے ہیں سائیں جی بھی آئیں گے تو مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ لڑکی نے جواباًکہا کہ پنکی مجھے حیرت ہوتی ہے تمہارے جیسی ماڈرن لڑکی بھی ان سب چیزوں پر یقین رکھتی ہے۔ پنکی نے جواب دیا۔ یار ایسا نہیں ہے، سائیں جی بالکل مختلف انسان ہیں، وہ باکمال شخصیت ہیں۔ میرے پاپا آج جو بھی ہیں انہیں کی وجہ سے ہیں ، میں بھی ان کی بہت عزت کرتی ہوں ، تمہیں ملواؤں گی کبھی پھر تم بھی یہی کہو گی۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ڈیانا پہلے ہی وہاں موجود تھی۔ پنکی نے غصے سے ڈیانا کو دیکھا، آج پہلی بار اسے وہ زہر لگ رہی تھی، ڈیانا بھی اس کے غصے کو بھانپ گئی اور اس نے پنکی کی رانوں پر سر رکھ دیا جیسے کہہ رہی ہو، بس آج معاف کر دو آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔

پنکی نے سعید سے کہاکہ اب سمیر کی طرف جانے کا وقت نہیں رہا تم گھرہی چلو۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے سارا راستہ وہ دل ہی دل میں کڑھتی رہی۔اسے خود پر اور سرمد دونوں پر عجیب سی کوفت آمیز ہنسی آ رہی تھی اور ظہور کو وہ نہ جانے کیوں دل ہی دل میں برا بھلا کہتی رہی۔ بلکہ ایک دم جب گاڑی گھر کے باہر رکی ، تو اس کے منہ سے نکل ہی گیا۔۔ بڑا آیا دانشور۔۔ ظہور کو سمجھ نہیں آیا۔ اس نے انتہائی مودبانہ انداز سے کہا۔۔آپ نے کچھ کہا میڈم صاحبہ۔

وہ جب گھر پہنچی تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ 6 بج رہے تھے اور سائیں جی ،اس کے پاپا اور دیگر مہمان گھر پر اس سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ ایک باریش ادھیڑ عمر شفیق شخص نے کھڑے ہو کر پنکی کو گلے لگا لیا۔ اس کے ہاتھ میں سنہری دانوں والی تسبیح تھی اور اس نے انتہائی شدید چمکیلے سفید رنگ کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔ پنکی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ سب کو سلام کرنے کے بعدوہ وہیں ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ 

آدھے گھنٹے تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد سائیں جی نے پنکی سے پوچھا۔ اچھا اب بتاؤ وہ کونسا خواب ہے جو میری بٹیا کو اتنا تنگ کرتا رہتا ہے، تم دیکھو میں ابھی اس کو کان پکڑواتا ہوں۔ پنکی سائیں جی کے اس مخصوص انداز سے واقف تھی، وہ مسکرائی اور اس نے ہلکے سے توقف کے بعدبتانا شروع کیا۔ سائیں جی کیا بتاؤںآئے روز یا ہر دوسرے دن یہ خواب مجھے ضرور آتا ہے۔ سائیں نے کہا تفصیل اور تحمل سے بتاؤ۔ پنکی کہنے لگی کہ میری شادی کا دن ہے، بارات آئی ہوئی ہے ،مجھے دوستوں نے بہت زیادہ سجایا ہوا ہے۔ گانے بج رہے ہیں، ماما، پاپا اور سب لوگ خوشی سے رقص کر رہے ہیں۔سائیں جی اچانک بیچ میں بول پڑے۔۔ یہ تو بہت زبردست خواب ہے بیٹا ،بلکہ یہ تو ہم سب کا خواب ہے اور ہم بہت جلد اس کی تعبیر کا بندوبست بھی کر لیں گے۔ یہی تو میں نہیں چاہتی۔ مجھے مردوں سے شدید نفرت ہے۔ سچ پوچھو تو مجھے گھن آتی ہے ان سے۔ اتنے میں ایک دس گیارہ سال کی بچی چائے لے کر آئی۔ جب وہ سب کو چائے دینے لگی تو اس کے ہاتھ سے ٹرے گری اور پنکی کے کپڑے چائے سے خراب ہو گئے۔ پنکی نے بغیر دیکھے اور سوچے سمجھے اس بچی کے گال پر ایک زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔ اور اپنی ماما کو آواز لگائی۔کون ہے یہ ایڈیٹ ؟ماما نے انتہائی مشفقانہ تدبر سے جواب دیا ، ارے بیٹا ایسا نہیں کرتے ۔۔یہ کلثوم کی چھوٹی بیٹی ہے۔ آج سہ پہر کو اس کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو کلثوم اس کے ساتھ ہسپتال میں ہے۔اور مہمانوں کی دیکھ بھال کے لئے اسے یہاں چھوڑ گئی ہے۔ کہہ رہی تھی میڈم صاحبہ یہ ایسے ہی تو سیکھے گی۔ آخر اس نے بھی تو آگے چل کر یہی کام کرنا ہے۔

یہ کیا خاک سنبھالے گی۔یہ بھی ماں کی طرح کام چور ہی لگتی ہے بلکہ یہ تو شکل سے ہی چور لگتی ہے۔ دیکھنا کہیں کچھ زیور وغیرہ ہی نہ لے اڑے۔اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے ۔دفعہ ہو جا یہاں سے ۔پنکی بولتی جا رہی تھی اور سائیں جی سمیت سب حیرت اور تشویش سے اسے دیکھ رہے تھے۔اس نے بات جاری رکھی سب مرد ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، لڑکیوں کو استعمال کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔سائیں جی نے ٹوکا۔ بیٹا ایسا نہیں ہے،مجھے تمہارے پاپا نے تمہارے حالیہ بریک اپ کے بارے میں بتایا ہے۔ مگر سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے بیٹا۔اب مجھے اور اپنے پاپا کو ہی دیکھ لیں۔پنکی نے فوراً طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا، مگر میں اب آپ سے یا پاپا سے تو شادی نہیں کر سکتی نا۔ سائیں جی نے اس کے گال پر ہلکی سی چٹکی بھری اور مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔شریرکہیں کی۔اچھا یہ بتاؤ خواب میں آگے کیا ہوتا ہے۔ پنکی بولنے لگی۔ جب میرے دوست مجھے رخصتی کے لیے باہر لانے سے پہلے میرے کمرے میں لگے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے لے کر جاتے ہیں تاکہ میں ایک نظر اپنے آپ کو دیکھ سکوں تو جونہی میری نظر آئینے پر پڑتی ہے توایک زوردار آواز آتی ہے اور آئینہ طلسماتی انداز سے چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کچھ کرچیاں میرے چہرے کو زخمی کر دیتی ہیں۔میرا چہرہ لہولہان ہو جاتا ہے اور جب میں بھاگتی ہوں تو میرے پاؤں میں بھی ان گنت کرچیاں چبھ جاتی ہیں۔ تبھی میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں پسینے سے شرابور ہو جاتی ہوں۔ابھی آپ دیکھ لیں خواب بتاتے ہوئے بھی آ گیا نا پسینہ۔ سائیں جی نے دو تین منٹ کے توقف کے بعد اپنی جیب سے ایک تعویز نکال کر اسے دیا جو سبز رنگ کے ململی کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اور اسے کہا کہ اس کو اپنے کمرے کے آئینے کے اوپر کسی چیز سے باندھ دو۔ پنکی نے اپنی ماما کو یہ تعویز تھما کر یہ کام انہیں سونپ دیا۔

جب تک اس کی ماما واپس آئی پنکی سب سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آرام کے لئے جانے کے لئے کھڑی ہو چکی تھی۔ اس نے سائیں جی سے انتہائی ادب سے رخصت لی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کی ماما اور پاپا نے سوالیہ نظروں سے سائیں جی کو دیکھا اور پھر وہ سب ڈنر کے لیئے ڈائننگ روم کی طرف چلے گئے۔

کھانے کے بعد سائیں جی پنکی کے پاپا سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو نثار ملک میں تمہیں تمہارے لڑکپن سے جانتا ہوں۔ تم بہت محنت اور کامل یقین کی وجہ سے آج اس مقام تک پہنچے ہو۔ جو ہیر پھیر اپنے کام میں تمہیں سوسائٹی میں اپنے رتبے کو برقرار رکھنے کے لئے کرنی پڑتی ہے اس کا ازالہ تم سال میں ایک آدھ عمرایا دو چارسال میں ایک حج کر کے کر لیتے ہو۔ صدقہ، خیرات بھی کرتے رہتے ہو، مگر اب یہ پنکی والا معاملہ مجھے بہت خراب لگ رہا ہے۔ آجکل کے بچوں کو ہم آزادی دینے پر تو مجبور ہیں ہی مگر ہمیں ان کے عقیدے اور یقین پر بھی محنت کرنی چاہئے ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ پنکی بھی واضح طور پر بے راہروی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ اس کے خواب میں اس کے لئے تکلیف دہ بات اسکی شادی نہیں بلکہ اس کا ٹوٹ جانا ہے۔ اس کی روح اور جسم ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ پنکی کی ماں اچانک گھبرائی ہوئی آ واز میں بول پڑی۔ یہ تو بڑی خطرناک بات ہوئی نا سائیں جی آپ ہی کچھ حل نکالیں۔ سائیں جی نہایت تدبرانہ لہجے میں گویا ہوئے۔ملک تم فوراً ایسا کرو کہ دس کالے بکرے صدقہ کر دو اور یہ نشتر روڈ ڈیفنس میں جو دھرنا چل رہا ہے ،ان لوگوں کے کھانے کا بھی بندوبست کر دو۔ سب اپنے ہی لوگ ہیں،بلکہ میں نے ابھی واپسی پر پانچ منٹ کے لئے جانا ہے ادھر دعا کے لئے، تم بھی چلو میرے ساتھ میں تمہارا تعارف بھی کروا دیتا ہوں۔ اور پنکی کے لئے میں خصوصی دعا کروں گا۔ انشا ء اللہ یہ تعویز بھی اپنا اثر دکھائے گا اور ہم بہت جلد پنکی کی شادی بھی دھوم دھام سے کر دیں گے۔اسکے بعد وہ دونوں پنکی کی ماما کو خدا حافظ کہہ کر باہر کی طرف چلے گئے۔

پنکی کافی دیر تک اپنے کمرے میں بے سدھ لیٹی اپنے خیالات کو قابو میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔کبھی اسے اپنے پاپا کی باتیں یاد آنے لگتیں جب وہ اس تمام تر جہالت اور وحشت کی ذمہ داری غریب لوگوں پر عائد کر رہے تھے اور پھر اچانک اسے ظہور کی آواز کمرے میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی کہ ان اوپر والوں نے خدا جانے کیوں یہ ملاں ہم پر مسلط کیئے ہوئے ہیں،اچانک اسے کلثوم کی بیٹی کی زوردار چیخیں کمرے میں گونجتی سنائی دینے لگیں۔۔۔ پھر پاپا۔۔۔ پھر ظہور۔۔ وہ اسی ذہنی اتھل پتھل سے گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور اچانک آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنے آپ کو ٹائٹ بلیو جینز اور سکائی کلر کی تنگ شرٹ میں اوپر سے نیچے تک ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سرِ راہ کوئی کسی اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے،کہ اچانک اس کی نظر سبز دھاگے میں لپٹے تعویز پر پڑ گئی جو آئینے کے اوپر بندھا ہوا تھا۔ یکدم آئینے میں اسکا چہرہ کھردرا ہو گیا اور اس کے دانت بڑھنا شروع ہو گئے ، وہ چلاتی ہوئی آنکھیں بند کئے کمرے سے باہر بھاگی تو وہ اس کی چیخ سن کر اس کے کمرے کی طرف دوڑتی ہوئی اپنی ماما سے ٹکرا گئی۔ ماما نے انتہائی پریشان کن بوکھلاہٹ میں اس کا چہرہ پکڑ کر اس سے پوچھا۔۔کیا بات ہے پنکی۔۔آنکھیں کھولو بیٹا۔۔۔کیا ہوا۔پنکی نے آنکھیں کھولیں تو وہ بالکل سرخ ہو چکی تھیں۔ ماما نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا ،تمہاری آنکھیں اور اتنی سرخ ۔۔ کیا ہوا پنکی۔۔ پھر وہی خواب دیکھا کیا؟پنکی نے خوف اور سکون کے ملے جلے جذبات میں آہستہ آہستہ کہا،اب وہ ساری کرچیاں پاؤں اور چہرے کی بجائے میری آنکھوں میں گھس گئی ہیں اور میری آنکھیں جل رہی ہیں جیسے اندر کوئی دوزخ ہے۔ اتنے میں اس کی نظر دور پریشان کھڑی کلثوم کی بیٹی پر پڑی۔ آج پہلی بار اس بچی کی آنکھوں میں اسے دنیا بھر کی معصومیت سمٹی ہوئی دکھائی دی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اسے گلے سے لگا کر رو رو کر اس سے معافی مانگے، اس نے اس لمحے یہ بھی چاہا کہ ظہور اس کے سامنے ہو اور وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائے۔ اتنے میں اس کی ماں کی انتہائی متفکر آواز نے ایک دفعہ پھراسے جھنجوڑ دیا۔ ہوش کرو بیٹی کیا ہوا تمہیں۔پنکی نے ایک چھوٹی سے بچی کی طرح للچائی ہوئی آواز میں اپنی ماں سے پوچھا۔پاپا کہاں ہیں ماما؟وہ سائیں جی کے ساتھ نشتر روڈ دھرنے پر گئے ہیں تاکہ ان احتجاجی مظاہرین کے کھانے کا بندوبست کیا جا سکے۔ سائیں جی نے پورا یقین دلایا ہے کہ تم بہت جلد بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اور اس طرح کے ڈراؤنے سپنوں سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔تم ہمت سے کام لو۔۔ پنکی فرطِ حیرت اور ندامت سے باولوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ اس کے منہ سے بے ربط اور بے تکے الفاظ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔ پاپا۔۔ دھرنا۔۔ کھانا۔۔۔ سمیر۔۔ ظہور۔۔۔ سائیں جی۔۔ کلثوم۔۔ اس کی ماں نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنے کمرے سے نیند کی دوالا کر پنکی کو دی اور اسے کہا یہ ایک ٹیبلٹ لے کر تم سو جاؤ۔۔ لگتا ہے تمہاری نیند ڈسٹرب ہے۔ میں بھی کبھی کبھار یہ دوا لے لیتی ہوں۔ اس کے بعدوہ پنکی کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کے کمرے میں لے گئیں اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔پنکی تھوڑی دیر ہونق ہو کر کمرے میں ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر ایک کی جگہ دو ٹیبلٹس لے کر بالآخر سو گئی۔

وہ گہری نیند میں تھی کہ اسے بالکل منفرد خواب آیا۔ وہ کسی کچی بستی میں سینکڑوں لوگوں کے بیچ تھی جہاں مرداور عورت دونوں یکساں تعداد میں موجود تھے۔ وہ سماجی مساوات اور آزادی کے موضوع پر دھواں دار تقریر کر رہی تھی۔ شرکا وقتاً فوقتاً پر جوش نعرے لگاتے رہے۔ تقریب کے اختتام پر سب لوگ اسے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ سب کا اصرار تھا کہ پنکی کھانا ان کے ساتھ کھائے۔ اس نے ایک انتہائی ضعیف بوڑھی عورت کا ہاتھ تھاما اور اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے پنکی کو مونگ کی دال اور سفید چاول کھانے کے لئے دیئے اور بعد ازاں اپنے ہاتھ سے میٹھی چوری کھلائی۔ اس بڑھیا کے مشکور آنسو ٹپک کر اس کے گال پر جمع ہو رہے تھے۔ مگر اس کا چہرا پر سکون اور طمانیت سے بھر پور تھا۔ پنکی محبت، عقیدت اور مسرت بھری نظروں سے اس دیوی کو دیکھتی رہی۔

صبح جب اس کی آ نکھ کھلی تو شاید گیارہ بج چکے تھے۔ اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور سمیر کو فون کیا۔۔۔ پنکی کیسی ہو تم۔۔ دوسری طرف سے انتہائی بے تکلف آواز تھی۔ میں ٹھیک ہوں یار ۔۔کل مصروفیت کی وجہ سے گاڑی لینے آ نہیں سکی تمہاری طرف۔۔ تمہاری مس کالز دیکھی تھیں، سوچا بعد میں بات کرتی ہوں مگر ذہن سے نکل گیا۔۔ تم ایسا کرو میری گاڑی لے کر ادھر آ جاؤ میں تمہیں واپس ڈراپ کر دونگی۔ ارے بھائی لگتا ہے تم نے ٹی وی نہیں دیکھا، آج تو مکمل ہڑتال ہے، سارے راستے بند ہیں، ابھی تو میں نہیں آ سکتا۔۔ پنکی نے اف کہہ کر فون بند کیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگی۔۔بھلا سارے راستے کیسے بند ہو سکتے ہیں۔۔ کوئی نہ کوئی راستہ تو ضرور موجود ہوتا ہے۔ خلافِ معمول اس کے سر میں قطعاً درد یا بوجھ نہیں تھا۔ اس نے اپنی زبان اپنے چکنے ہونٹوں پر پھیری تو اسے چوری کی مٹھاس واقعی محسوس ہوئی۔ اس کے چہرے پر ایک بے ساختہ پر اعتماد مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ تھوڑی دیر سکون کے لمبے لمبے سانس لینے کے بعد بستر سے اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ سبز کپڑے میں لپٹے تعویز کو اتار کر اس نے دراز میں رکھا اور کرسی لے کر آئینے کے سامنے بیٹھ گئی۔۔ وہ بہت دیر تک اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آئینے کو دیکھتی رہی۔ اور پھر تیار ہو کر اپنی پسند کا گیت گنگناتے ہوئے یہ دیکھنے باہر نکل گئی کہ وہ کونسا راستہ ہے جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔۔ 

فن اور طبقاتی جدوجہد ۔ حصہ اول

$
0
0

|تحریر: ایلن ووڈز|

(ہم فن اور طبقاتی جدوجہد کے موضوع پر ایلن ووڈز کے خطاب کا ٹرانسکرپٹ شائع کر رہے ہیں۔ یہ خطاب جولائی 2001ء میں بارسلونا، سپین میں منعقدہ مارکسی سکول میں کیا گیا۔)

دی پوٹیٹو ایٹرز- وان گو

ہم اپنے کسی بین الاقوامی اجلاس میں پہلی بار اس موضوع کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ اور شائد آپ میں سے کچھ لوگوں کے سامنے اس کا جواز پیش کرنا بھی ضروری ہو۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ فن ایک ضمنی سا معاملہ ہے اور زیادہ اہم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ انسانوں کے لئے انتہائی بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ یہ اس قدر بنیادی چیز ہے کہ بعض ماہرین بشریات کا خیال ہے کہ نوعِ انسانی کی شروعات کی وضاحت فن کے ظہور کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری انسانی نسل (یعنی ہومو سیپئین سیپئین) کے ظہور کی پہلی سنجیدہ علامات میں سے ایک فن کا وجود ہے۔ یعنی جمالیاتی حس کا ٹھوس اظہار۔ یہ نظریہ حال ہی میں متنازعہ بن گیا ہے، جس کی وجہ چند ایسی اشیاء کی دریافت ہے جن کا تعلق ہماری انسانی نسل سے پہلے کے نیم انسان نیندر تھال سے ہے۔ بلاشبہ ان میں بھی ایک مخصوص قسم کی جمالیاتی خوبی پائی جاتی ہے۔ لیکن اسے فن نہیں کہا جا سکتابلکہ یہ محض ایسی ابتداء ہے جس سے فن فروغ پا سکتا تھا۔

در حقیقت یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے عناصر نہ صرف دیگر بلکہ کمتر نوعیت کے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر بعض پرندے (جیسا کہ Bower Birds) ایسے تعمیراتی ڈھانچے بناتے ہیں جو گھونسلے نہیں ہوتے۔ ان کی بظاہر کوئی بھی عملی افادیت نہیں ہوتی اور انہیں تعمیر کرنے والے پرندے ان کو انتہائی غیر معمولی انداز میں سجاتے ہیں۔وہ رنگوں کی مخصوص تراتیب کا انتخاب کرتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ غالباٌ ان پرندوں میں بھی جمالیاتی حس موجود ہے۔

لیکن درحقیقت یہ پرندے ان ڈھانچوں کی بلا مقصد ہی تعمیر نہیں کرتے۔ یہ ڈھانچے واقعتابہت عملی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ نر پرندے یہ ڈھانچے مادہ کو متوجہ کرنے کے لئے بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ جنسی اختلاط کے مقصد سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے مظاہرے ہمیں تمام حیوانی دنیا میں ملتے ہیں۔ عام طور پر نر ہی شوخ رنگوں کی مدد سے بن سنور کر مادہ کی توجہ حاصل کرتا ہے جو اکثر اوقات کافی غیر پرکشش ہوتی ہے۔لیکن بہر صورت بہت سے جانوروں میں پائی جانے والی ان خصوصیات اور انسانی فنون میں ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ ادنیٰ حیوانات کی یہ سرگرمیاں جبلی ہیں جن کا تعین جینیاتی طور پر ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب یہ جنسی اختلاط کی غرض سے کی جاتی ہیں۔

فن رابطے کی ایک شکل

پتھر سے بنا ہو کلہاڑا

یہ حیوانی سرگرمی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہی جبلی اور انفرادی ہے جبکہ انسانی فن کا کردار بالکل مختلف ہے۔ یہ جبلی نہیں ہے بلکہ اسے سیکھنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی طور پر اجتماعی سرگرمی ہے۔ اگرچہ اس کی ہیئت بہت عجیب و غریب ہے لیکن دراصل فن حقیقت میں انسانی رابطے کی ہی ایک شکل ہے۔ اور اس کا ظہور انسان کی پیداواری سرگرمی کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے بالخصوص پتھر کے اوزار کی پیداوار کے ساتھ۔ اگر آپ ابتدائی دور کے پتھر کے اوزاروں کا موازنہ بعد کے کسی دور کے پتھر کے اوزاروں سے کریں آپ کو ایک انتہائی غیر معمولی فرق نظر آئے گا۔ بعد میں بنائے جانے والے اوزارزیادہ نفیس و دیدہ زیب اور ابتدائی نمونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامل اور پختہ نظر آتے ہیں۔ پتھر کے اوزاروں کی ساخت میں کاملیت کی جانب یہ سفر انسانی دماغ کے ارتقاء کی عکاسی کرتا ہے جس میں ایک مخصوص جمالیاتی حس کی شروعات بھی شامل ہیں۔

جمالیات کے سلسلے میں بہت سی عجیب و غریب قسم کی غیر سائنسی بکواس سننے میں آتی ہے یعنی یہ احساس کہ خوبصورتی اور بدصورتی کیا ہے۔ جسے خوبصورتی کا نام دیا جاتا ہے وہ کیا چیز ہے؟پہلی نظر میں وہ ایک عجیب و غریب اور پر اسرار شے معلوم ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے؟ ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے اور بد صورتی کیا ہوتی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی جانتے ہیں؟ لیکن اگر ہم تاریخ کا اور مختلف انسانی سماجوں کا جائزہ لیں تو یہ بات فوراً واضح ہو جاتی ہے کہ خوبصورتی کا ایسا کوئی عمومی تصور موجود نہیں جس کا اطلاق تمام ادوار اور تمام اقسام کے سماجوں پر ہوتا ہو۔ خوبصورتی کے بارے میں انسان کے تصور نے اسی طرح سے ارتقاء پایا ہے جس طرح اخلاقیات اور تمام مذاہب نے ہزاروں نسلوں پر محیط ارتقا کا سفر طے کیاہے۔

یہاں چند الفاظ تاریخی مادیت کے بارے میں کہنا ضروری ہیں۔یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بالآخر، اور ہم یہاں لفظ ’’بالآخر‘‘ پر زور دینا چاہیں گے، انسانی سماج اور تہذیب و ثقافت ایک مادی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جسے پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ سماج کی ابتدائی ہئیتوں میں اس تعلق کا ثابت کرنا نسبتاً آسان ہے اور بعد کے زیادہ پیچیدہ سماجوں میں قدرے مشکل ہے۔

سماج کی معاشی بنیاد اور کلچر کے مابین تعلق فن کی ابتدائی ترین اشکال میں انتہائی واضح ہے۔ مثال کے طور پر ہم مشرقی افریقہ کے مسائی قبیلے کا جائزہ لیتے ہیں۔ان کے ہاں اس عورت کو انتہائی پرکشش خیال کیا جاتا تھا جس کی گردن بہت لمبی ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ نوجوان لڑکیوں کی گردنوں کو غیر معمولی حد تک لمبا کر کے زرافے جیسا تاثر پیدا کر دیتے تھے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ بہت زیادہ پرکشش معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اس رسم کی شروعات کچھ یوں ہوئی تھیں۔ مسائی سماج کی دولت ایک جانب جانوروں کے گلوں اور دوسری جانب تانبے کی صورت میں ناپی جاتی تھی جو کمیاب ہونے کے باعث مہنگا تھا۔ اگر کوئی خاتون زیبائش کیلئے تانبے کی بہت سی چوڑیاں (بالخصوص گردن میں) پہنتی تھی تو اسے پر کشش خیال کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اپنی گردن کو طوالت دے کر خاتون ان تانبے کی چوڑیوں کی بڑی تعداد پہن سکتی تھی۔

ابتداء تو یوں ہوئی مگر طویل عرصے تک جاری رہنے کے بعد ایسی شروعات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ تاہم جب یہ رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو لوگ اس تصور کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ گویا ایک لمبی گردن بذاتِ خود کوئی خوبصورت چیز ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض افریقی قبائل میں سامنے کے دانت نکلوا دینے کا رواج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جگالی کرنے والے بعض ایسے جانوروں کو پالتے تھے جو دولت اور حیثیت کی علامت ہوتے تھے۔ وہ خود بھی انہی جانوروں جیسے نظر آنے کی کوشش کرتے تھے۔

تواس سے ہم کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں؟صرف یہ کہ خوبصورتی کا تصور کوئی حتمی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا تاریخی طور پر ارتقاء ہوا ہے اور اس میں بہت مرتبہ تبدیلیاں آئی ہیں۔توہم یہاں ایک اندیشے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔خطرہ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم سوال کو میکانکی انداز میں نہ لینا شروع کر دیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ مذہب اور فنون جیسی چیزوں کو براہِ راست پیداواری قوتوں کی ترقی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں ہم مارکس کا ایک حوالہ پیش کرنا چاہیں گے۔اس نے لکھا کہ

’’جہاں تک نظریات کا تعلق ہے تو انکی پرواز اور بھی بلند ہوئی ہے، وہ بہت اونچی پرواز کر سکتے ہیں،وہ اپنی شروعات سے الگ ہو جاتے ہیں اور خود زندگی حاصل کر لیتے ہیں،ایک خود مختار وجود۔‘‘

مارکس یہاں مذہب اور فلسفے کے بارے میں رقم طراز ہے لیکن ہم ان میں فن کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔وہ مزید لکھتا ہے:

’’یہ قبل از تاریخ کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں وہیں ان کی شروعات ہوئی تھیں‘‘۔دوسرے لفظوں میں ان کی جڑیں انسانی شعور میں بہت گہری ہیں اور اگر زیادہ نہیں تو یہ عرصہ لاکھوں برس پر محیط ہے۔’’جب تاریخ کا آغاز ہوا تو یہ پہلے ہی سے موجود تھے جہاں سے یہ سفر مزید آگے بڑھا۔‘‘

اگر ہم نفسیات کی اصطلاح میں بات کریں تو فن کی جڑیں ہمارے اجتماعی شعور میں بہت گہری ہیں۔ یہ مذہب کی طرح تاریخ اور ماقبل تاریخ کے دور افتادہ ادوار کے دھندلکوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ہم فن کی ابتدائی اشکال کو دیکھیں تو پہلی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اس کا بہت کم حصہ افتادزمانہ سے محفوظ رہ سکا ہے۔اس فن کا بہت بڑا حصہ ایسے مواد پر مشتمل تھا جو با آسانی فنا ہو جاتا ہے مثلاً لکڑی، ہڈی اور کھدے ہوئے نقوش کی صورت میں انسانی جلد۔ آپ میں سے بھی چند لوگوں نے یہ نقوش کھدوا رکھے ہیں۔غالباً آپ بھی تاریخ سے پہلے کے دور میں جانا چاہتے ہیں!اس قسم کا فن کم و بیش مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے اگرچہ سائبیریا میں تاریخ سے پہلے کے دور کی ایک خاتون کا منجمد جسم برآمد ہوا ہے جس کے بدن پر انتہائی دیدہ زیب نقوش کھدے ہوئے ہیں۔

غار کا فن (Cave Art) 

آج کل جب ہم تاریخ سے پہلے کے فن کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں غاروں کے اندرملنے والے نقوش کا خیال آتا ہے۔مثلاً فرانس میں دوردونئے اور شمالی سپین میں التا میرا کے علاقوں سے ملنے والی شاندار تصاویر ہیں۔ یہ تصاویریقیناًانسانی تہذیب و ثقافت اور فن کے ایک اعلیٰ مقام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسکی بعض مخصوص خصوصیات ہیں جو اسے فن سے جدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی تصاویر جانوروں کی شبیہوں پر مشتمل ہیں۔ انسانوں کی تصویریں نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں ہیں۔ لیکن فرانسیسی تصاویر میں ایک بہت پر اسرار شکل موجود ہے جو نیم انسانی ہے یعنی اسکا دھڑ انسان کا ہے اور سر ہرن کا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی جادوگر وغیرہ کی تصویر ہے۔

اگر ان میں انسان نہیں ہیں تو پھول بھی نہیں اور پودے بھی نہیں ہیں اور جن جانوروں کی تصاویر بنائی گئی ہیں وہ بھی مخصوص قسم کے جانور ہیں اور جس انداز میں ان جانوروں کے نقوش بنائے گئے ہیں وہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ ہزاروں برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی ہمیں خوبصورت لگتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی حیران کن حقیقت نگاری اور فطری ہونے کی وجہ سے خوبصورت لگتے ہیں اور ان میں اعضاء کے بارے میں زبردست آگہی دیکھنے کو ملتی ہے جو حقیقتاً بہت سائنسی ہے۔ ان میں ہر جوڑ، ہر ہڈی اور ہر رگ کو نہایت صحت کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

اگرچہ یہ شاندار تصاویر ہمیں خوبصورت لگتی ہیں لیکن یہ اسی حوالے سے خوبصورت نہیں ہیں جس حوالے سے یہ ان لوگوں کے نزدیک خوبصورت تھیں جنہوں نے انہیں بنایا تھا یا جو لوگ اس وقت انہیں دیکھتے تھے۔ہم ابھی اس کی وضاحت بھی کر دیں گے لیکن آئیں ہم اپنے ابتدائی کلمات کی جانب لوٹیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فن اہم نہیں ہے، فن ضروری نہیں اور یہ کہ فن محنت کش طبقے کے لئے نہیں ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔آپ ایک ایسی دنیا کا تصور کرنے کی کوشش کریں جو فن سے محروم ہو، موسیقی، گانے، رقص اور شاعری کے بغیر دنیا، آپ محض ایک لمحے کیلئے یہ تصور ذہن میں لائیں تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ فنونِ لطیفہ عوام کے لئے کتنے اہم ہیں، صرف دانشوروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر کسی کے لئے۔ طبقاتی سماج اور خاص طور پر موجودہ مغربی سماج کے حوالے سے یہ بات بالکل درست ہے کہ فن پر مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری ہے۔ یہ عوام کی پہنچ سے اکثر و بیشتر باہر ہے جو نہ صرف مادی بلکہ روحانی اعتبار سے بھی انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نے عوام کی اکثریت کو گھٹیا، بدصورت اور بیگانگی کے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اور بد قسمتی سے یہ سچ ہے کہ مرد و زن اس قسم کے حالات کے عادی بھی بن سکتے ہیں۔دراصل انسان کم و بیش کسی بھی چیز کے عادی ہو سکتے ہیں۔

غلام کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو سکتا ہے۔لوگ خراب رہائش گاہوں اور بری خوراک کے عادی ہو سکتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بری خوراک پسند ہے، اور ایسے ہی گھٹیا ٹی وی پروگرام،گھٹیا موسیقی،خاص طور پر گھٹیا موسیقی، گھٹیا فلمیں اور گھٹیا اخبارات۔وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے آزادانہ طور پر ان چیزوں کا انتخاب کیا ہے۔اس سلسلے میں لائی بنتز (Leibnitz) نامی فلاسفر نے کہا تھا کہ اگر مقناطیسی سوئی سوچنے کے قابل ہوتی تو وہ سمجھتی کہ وہ اپنی مرضی سے شمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دراصل ہم مطابقت پذیری کی وجہ سے اس قسم کی دیگر کئی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

حکمران طبقات کے لئے یہ چیز بہت فائدہ مند ہے۔ عوام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اس مادی و روحانی غربت کے حالات کو قبول کر لیں۔ جبکہ حکمران طبقہ خود خوبصورت گھروں میں رہتا ہے، تھیٹر میں بہت اچھے ڈرامے دیکھتا ہے، (بعض اوقات)بہت بہتر انداز میں لکھی گئی کتابیں پڑھتا ہے، زبردست قسم کی چھٹیاں مناتا ہے اور مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہے۔ لہٰذا فطری طور پر وہ سمجھتا ہے کہ عوام کیلئے ہر قسم کی گندگی جائز و مناسب ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہاں تک کہ وہ بھی جو بہت باشعور ہیں، اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ یہ معاملات نہ صرف فطری ہیں بلکہ تسلی بخش بھی ہیں۔

میں عام طور پر اپنے خاندانی پس منظر کا ذکر نہیں کرتا لیکن اس موقع پر میں اپنے دادا کے بارے میں چند الفاظ ضرور بیان کروں گا۔ وہ ایک نفیس شخص تھا،ویلز کا رہنے والا، سٹیل مل کا محنت کش اور کمیونسٹ۔ میں نے سوانسی کے مزدوروں کے علاقے میں اسی کے گھر میں پرورش پائی۔ اس گھر میں ہمیشہ کتابیں موجود ہوتی تھیں جن میں اینگلز کی اینٹی ڈوہرنگ جیسی مارکسی کتب بھی شامل تھیں۔ کلاسیکی موسیقی بھی تھی جس میں اطالوی اوپیرا خاص پر قابلِ ذکر ہے جسے ویلز کے مزدور بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ خود بھی عام طور پر اچھا گاتے تھے۔

میرے دادا نے سکول کے زمانے میں ہی مجھے مارکسزم سے متعارف کروا دیا تھا۔اس نے ایک بار ایسی بات کی تھی جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکا۔ اس نے کہا تھا:’کوئی بھی شے ایسی نہیں جو محنت کش طبقے کیلئے حد سے زیادہ اچھی ہو۔‘‘مجھے ذاتی طور پر اس وقت بہت غصہ آتا ہے جب درمیانے طبقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ محنت کشوں کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ساری تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات غلط ہے اور خاص طور پر انقلابات کی تاریخ جیسا کہ میں ثابت کروں گا۔

بیگانگی؛ حقیقی زندگی اور فنونِ لطیفہ کے درمیان یہ خلیج بہت سے عام محنت کشوں کو فن کے سلسلے میں مشکوک رویہ اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔’’مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ مجھے موسیقی پسند نہیں ہے۔ مجھے اوپیرا پسند نہیں ہے۔‘‘ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے سمجھ نہیں پاتے اور انکے نہ سمجھنے کہ وجہ یہ ہے کہ انہیں کبھی ان چیزوں سے آشنا ہونے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس قسم کے فن تک ان کی رسائی یا تو بالکل نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم فن اور زندگی کے درمیان یہ تقسیم ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ ابتدائی سماج میں فن زندگی کاحصہ تھا۔ ہر مرد اور عورت کی زندگی کا یہ نہ صرف حصہ تھا بلکہ ایک اہم حصہ تھا۔

آیئے اب ہم ایک ایسے خیال کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جو انتہائی غلط خیال ہے۔ اسے بورژوا اور پیٹی بورژوا فنکاروں کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ ’’فن برائے فن‘‘ کا تصور۔ یہ ایک انتہائی عام خیال ہے جو فن کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو خلاء میں معلق ہے، جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، جو محض اپنے لئے وجود رکھتی ہے اور سماج اور حقیقی زندگی سے الگ انتہائی شاندار تنہائی میں اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ جیسا کہ عظیم مادیت پسند فلسفی چرنیشفسکی نے کہا تھا کہ یہ بیان ہی بکواس ہے۔ اس کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ’’لکڑی کا کام کرنے کا مقصد لکڑی کا کام کرنا ہے‘‘۔

فن کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور ایسا ہمیشہ سے تھا۔ اولین فن کی غرض و غایت کیا تھی؟غاروں میں بنائی جانے والی منقش تصاویر کا مقصد کیا تھا؟ یہاں ہمارا واسطہ ایک اسرار سے پڑتا ہے کیونکہ یہ تصاویر آرائش کی غرض سے نہیں بنائی گئی تھیں جیسے مینٹل پیس کے اوپر پرانی تصویریں لگائی جاتی ہیں۔ یہ قطعاً آرائش کے لئے نہیں ہیں اور اسے آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہ غار کے انتہائی گہرے اور دشوار گزار کونوں کھدروں میں بنائی گئی تھیں جو مکمل تاریکی میں تھے اور اگر آپ اس دور کی ٹیکنالوجی کو ذہن میں رکھیں تو یہ بات انتہائی نا قابلِ یقین دکھائی دیتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ تصاویر بنائی ہیں انہیں انتہائی دشوار حالات میں رینگتے ہوئے اس جگہ جانا پڑتا ہوگا اور پھر جانوروں کی چربی سے بنائے ہوئے دھواں چھوڑتے چراغ کی ٹمٹماتی روشنی میں کام کرنا پڑتا ہوگا۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو بات انتہائی حیران کن لگے گی۔

اور اس کی وجہ کیا ہے؟ جہاں یہ تصویریں بنائی گئی ہیں وہاں لوگ نہیں رہتے۔ غالباً یہ لوگ غاروں میں رہائش پذیر بھی نہیں تھے اور اگر ان غاروں میں رہتے بھی تھے تو بیرونی حصوں میں رہتے ہوں گے جہاں تھوڑی بہت روشنی آتی تھی۔ یہ فن برائے فن نہیں تھا۔ یہ فن انتہائی عملی، سماجی اور معاشی مقصد کے حصول کے لئے تھا۔ در حقیقت اس وقت تک فن، سائنس اور مذہب کم و بیش ایک ہی چیز تھے۔ وہ آپس میں گڈ مڈ تھے۔

یہ وہ سماج تھے جنہیں ’’Hunter Gatherer‘‘ سماج کہا جاتا ہے۔ ان کا دارومدار شکار کرنے اور پھول پھل جمع کرنے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جانور کی تصویر بنانے سے شکاری کو اس جانور پر کسی طور برتری حاصل ہو جاتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ جادو تھا یا جادو سے ملتی جلتی کوئی چیز، جادو جو سائنس کا قبل از تاریخ ورژن تھا، یعنی مرد وزن کی طرف سے اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش۔ 

رقص اور موسیقی کے سلسلے میں بھی یہ بات سچ ہے۔ موسیقی نے رقص سے جنم لیا تھا اور قدیم لوگوں کے رقص اجتماعی ہوتے تھے۔ یہ انفرادی اچھل کود نہیں ہوتی تھی جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کی اس انفرادی اچھل کود میں ہمیں جدید سماج کے انتشار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ رقص کرتے وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھتے تک نہیں۔ وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں گم رہتے ہیں لیکن ماضی میں صورتحال ایسی نہیں تھی۔ میں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ آپ رقص و موسیقی کے بارے میں میرے ذوق سے اتفاق نہیں کرتے مگر میں یہاں ایک اہم نقطے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نقطہ یہ ہے کہ ابتدائی رقص اجتماعی نوعیت کے ہوتے تھے۔ ان میں سارا قبیلہ یا برادری شامل ہوتی تھی اور ان کا تعلق ہمیشہ پیداواری سرگرمی سے ہوتا تھا۔ امریکہ کے ابتدائی باشندوں کے رقص پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ان پرندوں،بھینسوں اور دیگر جانوروں کی حرکات و سکنات کی نقالی پر مشتمل ہیں جن کا وہ شکار کیا کرتے تھے۔ یہاں ہمیں ایک اہم اور ضروری نوعیت کی سماجی سرگرمی دکھائی دیتی ہے نہ کہ عیاشی۔ 

اور شاعری کی ابتداء کے بارے میں کیا خیال ہے؟ شاعری فنونِ لطیفہ کی تمام اصناف میں سے غالباً سب سے زیادہ قدیم ہے۔ اسکی جڑیں ان قدیم سماجوں میں ہیں جن کا ہمارے پاس کوئی تاریخی ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کیونکہ تحریر ایک نسبتاً حالیہ مظہر ہے جس کی عمر محض پانچ ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ آج کے دور میں کسی ایسے سماج کا تصور بھی محال ہے کہ جہاں ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، کتابیں یا اخبارات موجود نہ ہوں۔ اس کے باوجود انسانی کلچر کو یا تو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا پڑتا ہے یا وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم بحثیت انسان ادنیٰ درجے کے جانوروں سے مختلف ہیں۔ ہم مختلف اس لئے ہیں کیونکہ ہم جو کچھ جانتے ہیں،ہمارا علم اور جمالیاتی حس، مذہب اور سائنس،ہمارے طریقے اور رویے، روایات اور اخلاقیات، یہ تمام وسیع اور پیچیدہ علم جینیاتی طور پر منتقل نہیں ہو سکتا جیسا کہ اکثر جانوروں کے معاملے میں ہوتا ہے۔

ان تمام معلومات پر عبور حاصل کرنا پڑتا ہے اور تحریر کی مدد کے بغیر یہ بہت دقت طلب مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ان ابتدائی سماجوں کے قوانین جنہیں ہم غلط طور پر پسماندہ کہتے ہیں کافی پیچیدہ ہوا کرتے تھے۔ تحریر موجود نہیں تھی لیکن اس تمام تر روایتی علم، اس انتہائی پیچیدہ قبائلی حکمت اور دیومالا کو اگلی نسل تک منتقل بھی کرنا ہوتا تھا۔ تو پھر اسے کس طرح سرانجام دیا جاتا تھا؟ صرف ایک ہی طریقہ تھا؛ زبانی طور پر۔ عہدِ بربریت میں جو رزمیہ شاعری عام تھی اس کی شروعات اسی طرح ہوئی تھیں۔

ہومر کے نام سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسکی انتہائی شاندار مثال ہے حالانکہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس نام کے کسی شخص کا کوئی وجود بھی تھا۔ یہ انتہائی شاندار شاعری ہے اور اس کا تعلق نا قابلِ یقین حد تک پرانی زبانی روایت سے ہے۔ اس قدیم روایت کا ایک عملی مقصد تھا۔مثال کے طور پر اگر آپ ایلیڈ کی پہلی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو وہ قوانین ملیں گے جن کا تعلق جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک سے ہے۔ بعد ازاں آپ کو رتھوں کی دوڑ کے قوانین ملیں گے، آپ کو طبقاتی سماج کی شروعات کی دلچسپ منظر کشی بھی بہت واضح انداز میں پیش کی ہوئی ملے گی۔

ایلیڈ اور اوڈیسی میں جس سماج کی منظر کشی کی گئی ہے اس پر پہلے ہی سے اگامیمنان جیسے قبائلی سرداروں کا غلبہ ہے لیکن اس میں ابھی تک قدیم قبائلی جمہوریت کے عناصر بھی موجود ہیں۔ آپ کو ان کے اندر اس قسم کے مباحث ملیں گے جن میں بالکل سیدھی اور غیر پارلیمانی قسم کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً اخیلیس اپنے آقا اور بادشاہ کو ’’کتے کے منہ والا‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ اس سماج میں ایسا کردار بھی پایا جاتا ہے جسے شاعر اور قصہ گو (Bard) کہا جاتا تھا۔

قبائلی قصہ گو یا شاعر کا کام یہ تھا کہ وہ معلومات کے اس زبردست خزانے کو زبانی یاد کرے اور خصوصی مواقع پر سارے قبیلے یا برادری کے سامنے اسے تلاوت کی شکل میں پیش کرے۔ آج کے دور میں شائد بہت اچھی یاداشت رکھنے والے لوگ بھی ان کو زبانی یاد نہ کر سکیں۔ لیکن اس دور میں بعض لوگوں کے لئے ایسا کام کرنا معمول تھا۔ اس قدر طویل معلومات کو یاد رکھنے کے لئے وہ کچھ کرتب استعمال کرتے تھے۔ وہ لے، مخصوص اعادے، ایک جیسی آواز والے حروف کی تکرار، استعارے اور تشبیہات وغیرہ استعمال کرتے تھے جن سے انہیں یہ معلومات یاد رکھنے میں مدد ملتی تھی۔یہ ہے شاعری کی شروعات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پہلے ہی طبقاتی سماج کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اور فنون و ثقافت کی نوعیت میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ہم کسی اور جگہ وضاحت کر چکے ہیں کہ قدیم اشتراکی نظام کا تختہ کیسے الٹا گیا تھا اور کس طرح سماج کی طبقات میں تقسیم کا عمل شروع ہوا تھا۔اور اس کی وجہ سے ہر چیز میں بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ چاہے وہ عورت کی حیثیت ہو یا مرد کی ۔ اگر آپ یونانی دیومالا کا محتاط مطالعہ کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اکثر یونانی قصوں کی بنیاد ایک ہی چیز پر ہے۔ مادر سری نظام کا دھڑن تختہ اور اس کی جگہ پدر شاہی نظام کا قیام۔

ابتدائی سماجوں میں دیوتا نہیں بلکہ دیویاں ہوتی تھیں۔ قدیم ترین مجسموں کا موضوع عورت ہے جیسے کہ قدیم حجری دور کی وینس۔ دوسری جانب اولمپس کے دیوتا نر ہیں جو اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ سماج پر مردوں کا غلبہ تھا۔

غلام داری اور کلچر

طبقاتی سماج کی پہلی قسم غلام داری سماج ہے جس میں عوام کو غلامی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہونا پڑا۔ ہمیں غلامی بری چیز لگتی ہے، ایک انتہائی قابل نفرت چیز۔ لیکن ہیگل جیسے گہرے فلسفی نے غلامی کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ ’’ بات اتنی سی ہے کہ انسان غلامی سے آزاد نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان غلامی کے ذریعے آزاد ہوتا ہے۔‘‘ یہ بہت گہرے الفاظ ہیں۔ کیونکہ اگر ہم انسانی سماج کے ارتقاء کے بارے میں سوچیں تو ہمیں جو چیز بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ ابتدائی ترقی کی انتہا درجے سست رفتاری ہے۔ لاکھوں برس کے عرصے پر محیط ایک انتہائی سست رفتار، تکلیف دہ حد تک سست رفتار ارتقاء اور پھر تیز رفتار عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کس کے ساتھ؟ غلام داری سماج کے ساتھ، ہماری تہذیب نے غلامی سے جنم لیا ہے۔

تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ انسان غور وخوض اس وقت شروع کرتا ہے جب اسے ضروریاتِ زندگی دستیاب ہوں۔ یہ ایک انتہائی اہم مشاہدہ ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ مصر میں علم الحساب اور علمِ فلکیات کی دریافت کی وجہ یہ تھی کہ پروہتوں کو کام دھندہ نہیں کرنا پڑتا تھا۔وہ کام کاج کی ضرورت سے آزاد تھے۔ ایک مارکسی مصنف پال لافارگ نے کہا ہے کہ سوشلزم کے تحت مرد و زن سب سے اہم حق حاصل کر لیں گے۔ بے کار رہنے کا حق، کچھ نہ کرنے کا حق۔ اس وقت یہ حق چند امیر استحصالیوں کی مراعت ہے جسے وہ خوب اچھی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ساحل سمندر پرلیٹ کر وقت گزارتے ہیں۔لیکن سبھی نہیں۔ اکثر لوگ اپنے فارغ وقت کو بہتر انداز میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی فن، سائنس اور سارے کلچر کی ترقی کی بنیاد ہے۔

قدیم مصر کے پروہتوں کے پاس سوچنے کیلئے ضروری وقت تھا اور وہ ستاروں کو دیکھتے رہتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اہم دریافتیں کیں۔ یہ مصری کلچر کی بنیاد ہے۔ اس کا ظہور سماج کے طبقات میں بری طرح تقسیم ہو جانے سے ہوا اور پہلی بار فن عوام سے اور زندگی سے بالکل کٹ گیا۔ مصری فن کی بنیاد کیا ہے؟ ایک طرف تو یہ تمام سابقہ فن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن یہ بھی فن برائے فن نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر کسی مقصد کے لئے ہے۔ لیکن وہ مقصد اور وجہ کیا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مذہب کے متعلق فن ہے اور اس وجہ سے یہ انتہائی قدامت پرست فن ہے۔ علاوہ ازیں یہ گمنام فن ہے۔ وہاں عظیم الشاں فنکارانہ تخلیقات وجود میں آئیں لیکن ہم انکے خالقوں کے ناموں سے نا واقف ہیں۔ ہمیں کوئی مصری ریمبراں کوئی مصری پکاسو نظر نہیں آتا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ فن بھی اجتماعی اور سماجی تھا نہ کہ انفرادی۔ پروہت طبقے کا کام یہ تھا کہ وہ فن پر اپنی گرفت مضبوط رکھے۔ وہی اس کے تمام اصولوں کا حتمی طور پر تعین کرتے تھے اور فنکار ان میں سرِمُو تبدیلی کا مجاز نہیں تھا۔اس احمقانہ صورتحال سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مصری فنون میں ہزار سال تک کسی قسم کا ارتقاء کیوں نہ ہو سکا۔ اگرچہ اسکے فن پارے انتہائی نفیس ہیں، ہاں ان میں یونانی فن جیسی حیات و توانائی نہیں ہے۔

اس فن کا مقصد ایک شخص، فرعون، جسے خدا سمجھا جاتا تھا، کی شبیہ تخلیق کرنا ہے۔ عظیم الشاں اہرام اور دیو قامت مجسمے بھی اسی کی شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ برٹش میوزیم میں آپ کو فرعون کا ایک بازو ملے گا جو انسان جتنا بڑا ہے بلکہ شائد اس سے بھی کچھ بڑا ہو۔ یہ فن آپ کو کچھ بتاتا ہے۔ اور یہ آپ سے کہتا ہے کہ ’’میں بادشاہ ہوں، میں قادر و مطلق ہوں، تم کچھ بھی نہیں ہو، اس لئے تم ہمیشہ میری اطاعت اور عبادت کرو گے۔‘‘

اسیری فن میں بھی آپ کو یہی پیغام ملے گا۔ یہ زیادہ تر مٹی کی لوحوں اور دیواروں پر ابھرے ہوئے نقوش کی شکل میں موجود ہے۔کیونکہ دجلہ و فرات کے خطے میں پتھر ناپید تھا۔ ان فن پاروں کے موضوعات انتہائی تشدد آمیز ہیں۔ لیکن پیغام وہی ہے۔ یہ جیتی جاگتی زندگی سے مشابہہ تصویریں ہیں جن میں بادشاہ کو رتھ پر سوار ہو کر شیروں کو مارتے دکھایا گیا ہے۔ ان کو بنانے والے علم الاعضاء پر کامل عبور رکھتے تھے۔ ان میں آپ کو بادشاہ کے طاقتور بازوؤں کے تمام رگ و ریشے دکھائی دیتے ہیں اور وہ انتہائی بے رحمی سے شیر کو ہلاک کر رہا ہوتا ہے۔ کسی زخمی شیر کے زخموں سے خون بہہ رہا ہے اور کوئی تیروں سے چھلنی ہے۔ یہ بے لگام اور بے رحم قوت کی تصویر ہے۔

جنگ کے مناظر میں بھی یہی تصور کارفرما ہے۔ بادشاہ فوج لے کر کسی شہر پر چڑھائی کر رہا ہے۔ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ عورتوں، بچوں اور جانوروں کو مالِ غنیمت کے طور پر لے جایا جا رہا ہے جبکہ مرد جنگی قیدی بادشاہ کے تخت کے سامنے دوزانو ہو کر رحم کی درخواست کر رہے ہیں۔ لیکن رحم ناپید ہے۔ تخت شاہی کے پہلو میں کٹے ہوئے سروں کا ڈھیر لگا ہے جبکہ دیگر زندہ جنگی قیدیوں کی کھالیں کھینچی جا رہی ہیں۔ یہ فن ایک مخصوص سماج کی دستاویز ہے۔ ایک انتہائی عسکریت پسند آمرانہ ریاست کی، جس کا حکمران انسان کے روپ میں ایک دیوتا ہے اور وہ اپنے دشمنوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے قہقہے لگاتا ہے۔ اس فن میں تناسب یا موزونیت کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ایک شبیہ باقی تمام سے بلند و بالا ہے اور وہ بادشاہ کی ہے۔

زمانہ قدیم میں ہمیں کلاسیکی یونانی فن میں انتہائی اہم پیش رفت نظر آتی ہے۔ قدیم ایتھنز میں ذرائع پیداوار، سائنس اور تکنیک اس سطح تک پہنچ چکے تھے جہاں اس قدیم دور میں پہنچا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام حاصلات غلاموں کی محنت کی مرہونِ منت تھیں لیکن ایتھنز کی آزاد افراد پر مشتمل آبادی حقیقی جمہوریت سے بہرہ مند ہوئی تھی۔ اور کسی نہ کسی طور آزادی کی یہ روح اس فن میں بھی شامل ہے خصوصاً اس دور کے شاندار مجسموں میں۔

یہ فن مصری فن جیسا نہیں ہے۔ یہ ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ یہاں ہمیں پہلی بار انسانی اظہار، انسانی کلچر اور انسانی فنون کی زبردست نشونما دیکھنے کو ملتی ہے۔اگرچہ یہ بالکل ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن ان میں ہمیں اس مستقبل کی ہلکی سی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے جو سوشلزم کے تحت ہوگا۔ یہاں پہلی بار فن مواد کے حوالے سے حقیقی معنوں میں انسانی بن جاتا ہے۔ لوگوں کے ذہن مذہب کی تنگ حدود سے آگے نکل گئے ہیں۔ یونانی فلسفہ کائنات کی وضاحت کے لئے دیوتاؤں کا محتاج نہیں ہے۔ یونانی فلسفہ دیوتاؤں کی مدد کے بغیر کائنات کی وضاحت کرنے کی ایک کاوش ہے۔

ذرا یونانی مجسمہ سازی کی حیرت انگیز حاصلات پر نظر دوڑایئے۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ انسان کے فنکارانہ ارتقاء کی معراج ہے۔بدقسمتی سے اس فن کے زیادہ تر نمونے ضائع ہو گئے ہیں۔وحشیوں کی ہاتھوں نہیں بلکہ عیسایوں کے ہاتھوں جنہوں نے دیدہ و دانستہ اس کا بڑا حصہ برباد کر دیا۔ لیکن اس شاندار فن کا اتنا حصہ ضرور محفوظ ہے کہ ہم اسکی خوبصورتی اور معانی کو داد دے سکیں۔

میں آپ سب لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں، ان کو بھی جو کہ آرٹ گیلریوں میں جانے کے عادی نہیں ہیں، کہ وہ کسی آرٹ گیلری میں جائیں اور کچھ دیر کیلئے ان میں سے کسی مجسمے کے آگے محض کھڑے رہیں۔ آپ کو یہ احساس ہوگا کہ آپ کے سامنے حقیقی انسانی تخلیق، انسانی فن موجود ہے۔ یوں لگتا ہے گویا یہ مجسمے آپ سے ہمکلام ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ مکمل حقیقت نگاری نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جو کچھ موجود ہے وہ انسانی ہیئت ہے، مردوں اور عورتوں کے برہنہ اجسام کی خوبصورتی۔ لیکن حقیقت میں یہ خیال پرستانہ فن ہے۔ یہ یونانی فکر و فلسفے کی جزوی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں افلاطون اور فیثا غورث کے افکار کے سبب خیال پرستی ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی تھی۔ فیثا غورث کا خیال تھا کہ ہندسوں کی بنیاد پر قائم حساب اور ہم آہنگی ہر شے کی بنیاد تھی اور اس سوچ کے اثرات یونانی فکر پر طویل عرصے تک قائم رہے۔ اسی وجہ سے یونانی فن بہت ہم آہنگ ہے جس میں تناسب کو برقرار رکھنے میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے۔ یونان کے کلاسیکی فن تعمیر کے بارے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔

رومن آرٹ یونانی آرٹ کا ہی تسلسل ہے لیکن یہ کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس مقام پر ہم ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوتے دیکھتے ہیں۔ فن کی تاریخ انسانی تاریخ کے ارتقاء کی ہوبہو عکاسی نہ تو کرتی ہے اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے جس کا مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں۔مثال کے طور پر یہ قطعاً لازمی نہیں ہے کہ اگر پیداواری قوتیں آگے بڑھتی ہیں تو فن کا احیاء بھی یقینی طور پر ہوگا (جیسا کہ پچھلے پچاس برس کی تاریخ واضح طور پر ثابت کرتی ہے) اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بحران اور معاشی زوال کے دور میں عظیم فن تخلیق نہیں ہو سکتا۔

بعض اوقات سماج میں زوال کے دور میں ایک عجیب و غریب جدلیاتی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ انسانی شعور اپنے آپ پر ہی مرکوز ہو جاتا ہے اور نتیجے میں انتہائی اہم فلسفیانہ اور فنکارانہ تخلیقات جنم لے سکتی ہیں۔ تا ہم یہ بات درست ہے کہ آخری تجزیے میں تمام تر انسانی کلچر کا انحصار پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہوتا ہے اور پیداواری قوتوں کے عمومی انہدام کا نتیجہ بالآخر انسانی کلچر کے عمومی زوال کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

تاریک دور

امریکی سوشلسٹ مصنف جیک لندن نے ایک شاندار کہانی لکھی ہے جو کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی پسندیدہ کہانی ہے۔ اس کا نام ہے ’’The Scarlet Plague‘‘۔ اس میں مستقبل کی خوفناک منظر کشی کی گئی ہے۔ اس میں ایک ایسا سماج دکھایا گیا ہے جہاں تمام بیماریوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ اچانک ایک نئی بیماری وجود میں آتی ہے جس کے لئے کوئی دوا کار گر ثابت نہیں ہوتی اور وہ کرۂ ارض کی بیشتر آبادی کا صفایا کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تہذیب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

یہ ایک انتہائی پر بصیرت افسانہ ہے کیونکہ اس میں پیداواری قوتوں اور کلچر کے درمیان تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے۔ تاہم پیداواری قوتوں یعنی سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی کے زوال کے اثرات ڈرامائی ہوتے ہیں۔ کسی بھی تباہی کی محض ایک نسل کے بعد جو بچے بڑے ہوئے ان کے خیال میں ان کا دادا، ایک سائنس دان جو اس بڑی تباہی سے بچ نکلا تھا، جو کاروں اور ریل گاڑیوں والے سماج کی باتیں کرتا تھا، محض ایک لغو کہانی تھی۔ تہذیب کی یاداشت کا بھی قصہ تمام ہو رہا تھا۔ اگرچہ دادا ابھی بھی نہایت شستہ انگریزی بولتا تھا لیکن پوتے جو زبان بولتے تھے وہ زیادہ قابل فہم نہیں تھی۔ وہ ایک دوسرے سے بے ہنگم آوازوں میں گفتگو کرتے تھے کیونکہ ایک پیچیدہ زبان کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔

تاریخ کی لکیر اگر اوپر کی جانب جاتی ہے تو نیچے کی جانب بھی آتی ہے جیسا کہ سلطنت روم کی تباہی کے وقت ہوا تھا۔ روم کو بھی آخر کار وحشیوں نے تباہ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے محض اسے آخری دھکا دیا تھا۔ وہ اپنے داخلی تضادات کے باعث تباہ ہوا تھا۔ غلام داری کے داخلی تضادات کی وجہ سے پیداواری قوتوں کا انہدام ہو گیا تھا۔ اولین عیسائی ایک انقلابی اور اشتراکی تحریک کی نمائندگی کرتے تھے جسے زوال پذیر نظام کے رکھوالے بڑی حقارت سے عورتوں اور غلاموں کا مذہب کا قرار دیتے تھے جیسا کہ غریبوں اور محروموں کی انقلابی تحریکوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابتدائی عیسائیوں نے دنیا کو بدی قرار دیتے ہوئے اس سے منہ موڑ لیا۔ وہ روم کے دولت مند طبقات کی عیاشانہ زندگی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ روم کو دنیا بھر کی غلاظتوں اور فاخشاؤں کی ماں قرار دیتے تھے۔ ان کے دلوں میں سادگی کا جو جذبہ جا گزین تھا وہ آرٹ، کلچر اور سائنس کے سخت خلاف تھا۔

اس دوران تقریباً پانچویں صدی کے لگ بھگ انسانی تاریخ کی عظیم ترین نقل مکانی واقع ہوئی۔ سلاف اور جرمن قبائل کی مغرب کی جانب حرکت کی وجہ سے پرانا غلام داری سماج منہدم ہو گیا۔ اگرچہ یہ انہدام بہر صورت ہو ہی رہا تھا۔ اور اس انہدام کے ساتھ کلچر بھی مکمل طور پر منہدم ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ زوال کی گہرائی کا تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ میں صرف ایک حقیقت بیان کروں گا جس سے قرونِ وسطیٰ کے بارے میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ 1500ء میں، یعنی دیکھ بھال ترک ہونے کے ایک ہزار سال بعد بھی، رومنوں کی تعمیر کردہ سڑکیں یورپی براعظم کی بہترین سڑکیں تھیں۔ باقیوں میں سے اکثر اتنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھیں کہ ناقابل استعمال تھیں۔ یورپ کی بندرگاہوں کا بھی آٹھویں صدی عیسوی تک یہی حال تھا جب تجارت کا دوبارہ احیاء ہوا۔

جن فنون کا خاتمہ ہوا ان میں اینٹوں کے استعمال کا فن بھی شامل تھا۔ دس صدیوں تک جرمنی، ہالینڈ، انگلینڈ اور سیکنڈے نیویا کے علاقوں میں گرجا گھروں کے علاوہ پتھروں سے بنی ہوئی عمارتیں کم ہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں پیداواری قوتوں کے انہدام کے سبب کلچر کو مکمل طور پر گرہن لگ چکا تھا۔ ایسے خوفناک زوال کے حالات میں عوام کے حالاتِ زندگی پر کیا گفتگو کی جائے؟ایلفریک نامی ایک راہب نے ونچسٹر میں لاطینی زبان سکھانے کے لئے ایک کتاب تحریر کی تھی۔میں اس میں سے محض ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔

استاد: کسان، تم کیا کرتے ہو اور تم اپنا کام کیسے کرتے ہو؟

شاگرد: جناب میں بہت سخت مشقت کرتا ہوں،میں طلوعِ سحر کے وقت اٹھ کر بیلوں کو کھیتوں میں لے جاتا ہوں۔ اور انہیں ہل میں جوتتا ہوں۔ سردی کتنی بھی شدید کیوں نہ ہو میں مالک کے خوف کی وجہ سے گھر پر نہیں ٹھہرتا۔ اور بیلوں کو جوتنے اور ہل تیار کرنے کے بعد میں ہر روز ایک ایکڑ یا اس سے زیادہ زمین پر ہل چلاتا ہوں۔

استاد: تمہارے ساتھ اور بھی کوئی ہوتا ہے؟

شاگرد: میرے ساتھ بیلوں کو چھڑی سے ہانکنے کے لئے ایک لڑکا بھی ہوتا ہے اور اس کا گلا شدید سردی اور چلانے کے باعث بیٹھ گیا ہے۔

استاد: تم دن میں مزید کیا کام کرتے ہو؟

شاگرد: بہت سا کام کرتا ہوں۔ میں بیلوں کو چارہ ڈالتا ہوں،انہیں پانی پلاتا ہوں اور ان کا گوبر باہر لے جاتا ہوں۔

استاد: اور کیا یہ سخت کام ہے؟

شاگرد: ہاں یہ سخت کام ہے کیوں کہ میں آزاد نہیں ہوں۔

جاگیر داری سماج کا ابھار اپنے ساتھ ثقافتی جمود کا ایک طویل دور بھی لے کر آیا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک کوئی حقیقی ایجاد سامنے نہیں آئی۔ اس میں پن چکی اور ہوائی چکی کی ایجاد کو استثناء کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں سارے کلچر پر کیتھولک چرچ کا غلبہ تھا۔ میں بلاشبہ یورپی کلچر کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ بدقسمتی سے میرے پاس عالمی کلچر پر گفتگو کے لئے وقت نہیں ہے۔ ہم ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کلچر پر گفتگو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ اسلامی دنیا میں قرونِ وسطیٰ کے یورپ جیسے ثقافتی جمود کی کیفیت نہیں تھی۔ جب عیسائی یورپ بربریت میں ڈوبا ہوا تھا، مسلم سپین اور مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں شاندار سائنسی اور ثقافتی پیش رفت ہو رہی تھی جس نے بعد ازاں یورپ کے کلچر کو جلا بخشنے میں مدد دی۔ دوسری جانب عربوں اور ایرانیوں نے جو ایجادات کیں ان کا ماخذ ہندوستان تھا۔

یہاں ہمارے پیش نظر بنیادی طور پر سرمایہ داری کا ارتقاء ہے جس کی شروعات غالب طور پر ایک یورپی مظہر کے طور پر ہوئی تھیں۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی بنیادی خصوصیت چرچ کی ثقافتی آمریت تھی جو کہ کلاسیکی کلچر کی مکمل نفی کرتا تھا۔ یونانی اور رومن آرٹ میں انسانی جسم مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ جاگیردارانہ عیسائی آرٹ نہ صرف انسانی ہیئت بلکہ دنیا اور تمام انسانی سرگرمیوں کو مسترد کرتا تھا۔ وہ انسانوں کی نظروں کو آسمان کی جانب پھیرتا تھا۔ وہ ہمیں بتاتا تھا کہ یہ دنیا جنوں اور شیطانوں کی دنیا ہے۔یہ دنیا بھی بدی ہے اور جسم بھی۔

مرد اور عورت کے درمیان تعلق بھی بدی ہے۔ عورتیں بطورِ خاص بدی کی علامت سمجھی جاتی تھیں کیونکہ کتاب تخلیق کے پہلے باب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تمام تر انسانی خرابیاں عورت کی وجہ سے ہیں۔

پہلے پہل کلیساؤں میں موسیقی پر پابندی تھی۔ میں سینٹ تھامس کی کتاب’’Summa Theologica‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں ہمیں آلات موسیقی کی بدی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’آلات(موسیقی) کو کلیساؤں اور عبادت سے اس لئے خارج کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک جسم رکھتے ہیں۔ وہ دماغ میں خلل ڈالتے ہیں اور یہاں تک کہ نفسانی لطف کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘کسی کو نفسانی لطف کی طرف مائل کر سکتے ہیں، کیا خوفناک تصور ہے۔

قرونِ وسطیٰ کے گرجے، گوتھک گرجا گھر، اس کلچر اس آرٹ کا نقطۂ نظر عروج ہیں۔ یہ بھی فرعون کے مصری مجسموں کی طرح ایک بیان ہے جو پتھر کی زبان میں رقم ہے۔ ان گرجا گھروں میں داخل ہوتے ہی آپ آواز دھیمی کر لیتے ہیں۔ یہاں تاریکی ہے، یہاں آنے والی روشنی بھی اکثر اوقات رنگدار شیشوں والی کھڑکیوں سے گزر کر آتی ہے۔ یہاں جو بھی تھوڑا بہت رنگ ہوتا ہے اسی کے سبب سے ہوتا ہے۔ یہ روح کی تاریکی کا اسرار ہے اور یہ دیو قامت عمارتیں جو آسمان کی طرف منہ کیے کھڑی ہیں اس لیے یوں تعمیر کی گئی ہیں تاکہ مرد و زن خود کو چھوٹا اور غیر اہم محسوس کریں۔ کچھ لوگوں کو یہ آرٹ پسند ہے۔ میرے خیال میں یہ انتہائی غیر انسانی آرٹ ہے۔ انسانیت کا خود اپنے حالات سے بیگانگی کا اظہار پتھر کی شکل میں۔

جاگیرداری کا بحران

اس تمام عرصے میں کروڑوں انسان اس روحانی آمریت کے تحت پیدا ہوئے اور مر گئے۔ انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ گرجا گھروں میں کیا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ باتیں لاطینی زبان میں کی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود چرچ کے باہر سورج طلوح ہوتا تھا، پرندے گاتے تھے، مرد اور عورتیں پیار و محبت کے کھیل کھیلتے تھے، رقص و موسیقی کا جادو جاری تھا۔ اور پھر آخر کار سماج کے طبقاتی مواد میں تبدیلی پیدا ہوئی جس کے فن پر نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

دی ڈیتھ اینڈ مزر

قرونِ وسطیٰ کے دور کے آخری مراحل میں یعنی کم و بیش تیرھویں صدی کے بعد سماج ایک گہرے بحران میں داخل ہو گیا۔ اور جب کوئی سماج اس قسم کے بحران میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت بہت عرصے تک قائم رہ سکتی ہے۔یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا، اس میں اتار چڑھاؤ آ سکتے ہیں لیکن اس کا عمومی رخ نیچے کی جانب ہی رہتا ہے۔

اسی قسم کے ادوار میں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سماج بحران کا شکار ہے، محض معاشی وجوہات کے سبب نہیں، بلکہ میں یہاں کہوں گا کہ بنیادی طور پر معاشی وجوہات کی بنا پر نہیں۔ زوال کا ایک عمومی احساس موجود ہوتا ہے، اخلاقیات کا بحران، خاندان کا بحران، چرچ کا بحران، عقیدے کا بحران، سائنس کا بحران، آرٹ کا بحران اور قرونِ وسطیٰ کے آخری ایام میں یہی صورتحال تھی۔ قحط، وباؤں، جنگوں، زوال اور عمومی ذلت و محرومی کے درمیان ایک زبردست تبدیلی جنم لے رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور در حقیقت یہ خاتمہ ہو رہا تھا۔ بذاتِ خود دنیا کا خاتمہ تو نہیں البتہ جاگیر داری کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ جاگیر دارانہ نظام کا انہدام ہو رہا تھا۔ دنیا کے خاتمے کے تصور کا اظہار فن کی دنیا میں Breugel the Elder اور خاص کر Hyeronimus کی شاندار پینٹنگز کی صورت میں ہوا جنہیں میڈرڈ کے پرادو میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بورژوازی کا ابھار 

بلاشبہ یہاں فیصلہ کن سوال نئے انقلابی طبقے کے ابھار کا تھا جو پرانے سماج، اسکے سماجی نظام، اس کے عقائد اور اس کے مذہب کو دعوت مبارزت دے رہا تھا۔ اسی طرح جیسے جدید محنت کش طبقہ مزدور تنظیموں کے ذریعے رفتہ رفتہ سماج میں اپنے لیے جگہ بناتا ہے۔

سرمایہ دار طبقے نے شہروں کو بالکل مختلف بنیادوں پر قائم کیا۔ انکی بنیاد زراعت اور پرانے جاگیردارانہ تعلقات پر نہیں تھی بلکہ تجارت، خرید و فروخت، پیسے اور سود کے کاروبار پر تھی۔ انہوں نے ایک نئے طرزِ زندگی کو ترویج دی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ بتدریج نئے ذوق اور نئے فنکارانہ تصورات ابھرے اور سب سے بڑھ کر ایک نئے مذہب پروٹسٹنٹ ازم نے جنم لیا۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مذاہب میں بنیادی نظریاتی فرق کیا ہے؟زیادہ تر لوگ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ بہت آسان ہے۔ کیتھولک مذہب عملی کاموں کے ذریعے نجات کا درس دیتا ہے جبکہ پروٹسٹنٹ مذہب ایمان یا عقیدے کے ذریعے نجات دلاتا ہے۔ اگر ہم ایک غیر نفیس انداز میں اس فرق کی طبقاتی نوعیت کو بالکل واضح طور بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایمان بہت سستا ہے۔ اس پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا جبکہ عملی کاموں کو سر انجام دینا مہنگا پڑتا ہے۔ اس کا طبقاتی مفہوم کیا ہے؟ یہ بورژوازی اور جاگیر دار اشرافیہ کے مابین فرق کی تہہ تک پہنچتا ہے۔ زراعت پر مبنی جاگیر داری نظام میں نئی ایجادات کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی کسی چیز (اگر وہ دستیاب بھی ہوتی) میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جاگیر داروں کے پاس مزارعوں کی شکل میں بے شمار افرادی قوت موجود تھی جو عملاً غلام تھے۔ اگرچہ وہ رسمی طور پر آزاد تھے لیکن زمین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ اور اگر آپ کو محنت انتہائی سستے داموں دستیاب ہو تو آپ کو پیداواری کارکردگی میں اضافے کے لئے مشینری کی چنداں ضرورت نہیں۔ غلام داری سماج میں بھی اس قسم کی صورتحال موجود تھی۔ سکندریہ کے یونانیوں نے دخانی انجن ایجاد کر لیا تھا جو کام بھی کرتا تھا لیکن وہ محض ایک کھلونا اور عجوبہ ہی رہا۔ اس کا عملی اطلاق نہیں ہو سکا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوبارہ سرمایہ لگانے کہ ضرورت نہیں تھی تو پھر حکمران طبقہ زائد پیداوار کو کہاں کھپاتا تھا؟ ظاہر ہے کہ آپ اسے دوسروں کو بھی دے سکتے ہیں اور ان میں سے کچھ حضرات ایسا کرتے بھی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ بہت سخی بھی تھے۔ان کے پاس سخاوت دکھانے کی گنجائش موجود تھی۔ آپ اسے مہنگے لباس، زیورات اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر خرچ کر سکتے ہیں جیسا کہ جاگیر داراشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کرتے تھے۔ آپ اسے چرچ کے حوالے بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے بدی کی زندگی گزاری ہو جیسا کہ ان میں اکثر گزارتے تھے تو اس پیسے کے عوض پادری اگلے پانچ سو سال کے لئے آپ کی روح کے ایصالِ ثواب کے لئے دعا کر سکتا تھا تا کہ آپ کو جنت کے فرسٹ کلاس ٹکٹ کی ضمانت فراہم کر سکے۔

یہی وجہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں جاگیر دار اشرافیہ سے حاصل شدہ دولت کے ذریعے عظیم الشاں گرجا گھر تعمیر کیے جا سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بائبل میں چرچ کے عمارت کی شکل میں ہونے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ حضرت عیسیٰ نے کسی جگہ فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے دو تین جہاں بھی میرے نام سے جمع ہو جائیں گے میں وہیں ہوں۔‘‘ لاطینی زبان کے لفظ ’Ecclesia‘ (جس سے کلیسا ماخوذ ہے) کا مطلب اجتماع ہے،عمارت ہرگز نہیں۔

مارٹن لوتھر

پھر لوتھر نام کا ایک شخص وارد ہوا جس نے بائبل کا ترجمہ جرمن زبان، نہایت اچھی جرمن زبان میں جو کہ جدید ادبی زبان کے لئے بنیاد بنی، میں کیا اور لوگوں نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے انقلاب کا آغاز ہو گیا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا مقصد یہ تھا کہ بائبل کے علاوہ کسی چیز کو بنیاد نہ بنایا جائے۔یہ خدا کے ا لفاظ تھے جنہیں اس نے براہِ راست انسان پر اتارا تھا۔ ’’اگر ہمارا ایمان پختہ ہو،اگر ہم بائبل کے وسیلے سے یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں تو ہم بخشے جائیں گے۔‘‘اس دور کے حوالے سے یہ ایک انتہائی انقلاب آفرین پیغام تھا۔

یہ چرچ کے خلاف براہِ راست حملہ تھا۔اس کی روحانی آمریت کے خلاف، اس وسیع و عریض نوکر شاہی کے خلاف جس پر بے پناہ اخراجات اٹھتے تھے، جو زیاں کا باعث تھی اور جو ہر حوالے سے بد عنوان تھی۔ اس قابلِ نفرت روحانی اشرافیہ کے خلاف جو بلاوجہ ان پر ٹیکس عائد کرتی رہتی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس دور کا ذکر رہے ہیں جسے مارکس سرمائے کے ابتدائی ارتکاز کا دور کہتا ہے۔ بورژوا طبقہ اپنی دولت سرمایہ کاری کی غرض سے پس انداز کرنا چاہتا تھا۔ دو صدیوں کے بعد امریکی انقلابیوں کا نعرہ تھا کہ ’’نمائندگی کے بغیر ٹیکس نہیں دیں گے‘‘جبکہ انیسویں صدی کے لبرل ’’سستی حکومت‘‘ کا مطالبہ کرتے تھے۔ لیکن بورژوا طبقے کا اولین نعرہ ’’سستے مذہب‘‘ کا تھا۔اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ ہمیں ان چرچوں، پادریوں، بشپوں اور پوپ کی کوئی ضرورت نہیں اور بلاشبہ اس بات کا ایک جمالیاتی فنکارانہ اظہار بھی موجود تھا۔

بورژوا انقلاب

برطانوی Puritan فرقے کے لوگ انتہائی سادہ سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ یہ چیز بذاتِ خود ایک انقلابی بیان تھا۔ امیروں کے خلاف،نمود و نمائش کے خلاف،لباس پر بے جا توجہ کے خلاف،زیورات اور بد عنوانی کے خلاف،اس میں ایک واضح انقلابی مفہوم پنہاں تھا۔ غلام داری سماج اور جاگیر داری کے برعکس سرمایہ داری نظام نے تاریخ میں پہلی بار انسان کے حقوق کی تبلیغ کی، فرد کے حقوق کی تبلیغ کی۔ حقیقت میں انفرادیت اور سرمایہ داری ناقابل علیحدگی ہیں اور آرٹ پر اس کا ایک اہم اثر یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار انفرادی فنکاروں کے شاہکار سامنے آئے کیونکہ اس سے پہلے تمام یا تقریباً تمام آرٹ گم نام آرٹ تھا۔

یہاں ہمیں فنکاروں کا ظہور نظر آتا ہے۔ ایسے لوگ جنہیں ہم افراد کے طور جانتے ہیں۔ چودھویں اور پندرھویں صدی میں پہلے شمالی اٹلی اور پھر ہالینڈ میں اس شاندار عہد کا آغاز ہوا جسے ہم نشاۃِ ثانیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس فن میں انوکھی چیز کیا ہے؟فلانڈرز میں ہمیں وان آٹک برادران، ہوبرٹ اور جان وان آئک مذہبی موضوعات کی ایک انوکھے انداز میں تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مذہبی تھے لیکن ان تصاویر کا سارا مواد سابقہ آرٹ سے بالکل مختلف تھا۔

سر تھامس مور

اگر آپ اس فلینڈری آرٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو حقیقی مرد و زن نظر آتے ہیں۔ انسان فن کی دنیا میں واپس لوٹ آیا ہے۔ فلسفے میں ہمیں اس قسم کا مظہر انسان دوستی کے فلسفے کے ابھار کی صورت میں نظر آتا ہے جو فرد کے حقوق کے اسی قسم کے بورژوا تصور کا اظہار ہے۔ اس کی نمائندگی اراسمس اور سرتھامس مور جیسے لوگ کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ نئے مکاتبِ فکر اٹلی کی پیداوار تھے جہاں آرٹ یونان کے بعد ایک نئی معراج کو پہنچا تھا۔یہ بورژوا طبقے کے ابھار کا براہِ راست اظہار تھا۔

انسان کی انفرادیت کے اس انقلابی تصور کا انتہائی شاندار اظہار ہمیں بوتی چیلی جیسے لوگوں کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ وینس کی پیدائش تصویر کشی کے فن میں ایک ارفع ترین حیثیت رکھتی ہے۔ اس خوبصورت تصویر کا عیسائیت یا قرونِ وسطیٰ کے دور سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کا موضوع مذاہب کے ظہور سے پہلے کے عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ عشق و محبت کی دیوی’Aphrodite‘ لہروں سے جنم لے رہی ہے۔اس کے مرکز میں عورت کی ہیئت ہے، ایک عریاں جسم، یہ ایک ایسا موضوع ہے جو قرونِ وسطیٰ کے کلیسا کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا کیونکہ اس کے نزدیک جسم بدی تھا اور عورت اس بنیادی گناہ کا باعث تھی جس کے سبب آدم کو جنت سے نکالا گیا تھا۔ یہاں اس کے برعکس انسانی جسم کا ایک شاندار جشن دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسانی جوہر،بذاتِ خود حیات نکھر کر سامنے آئی ہے جیسے وہ قدیم یونان کے دور میں آیا کرتی تھی۔ اس تصویر میں جس انداز میں لہروں اور جسم کے علاوہ جس طرح ہوا کو پہنے کپڑے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اس میں ایک قسم کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک انقلابی بیان ہے جس میں پرانے جمود اور پرانی مذہبی مابعد الطبیعیاتی سوچ کی مکمل نفی کی گئی ہے۔ اس میں پرانی تاریکی کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔یہاں ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔ کچھ بھی ساکت نہیں ہے ہر شے حرکت میں ہے، رقص کر رہی ہے اور قہقہے لگا رہی ہے۔یہاں پہنچ کر بالآخر آرٹ غیر انسانی نہیں رہا۔ یہ حقیقی معنوں میں انسانی آرٹ ہے۔

اس سے انسان کے اندر کائنا ت اور اس میں اس کے مقام کے تصور میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ وہی جرات مندانہ نقطہ نظر ہے جو سائنس کو تجربے اور تحقیق کے نئے عہد میں لے گیا اور سیاست کو براہِ راست جاگیر دارانہ کیتھولک رجعت کے خلاف ابھرتی ہوئی بورژوازی کے انقلابی نوعیت کے تصادم کی طرف لے گیا۔خاص طور پر ہالینڈ میں جہاں بورژوازی سب سے بڑی رجعتی قوت سپین،جسے آج کل کے امریکی سامراج سے مشابہہ قرار دیا جا سکتا ہے، کے خلاف ایک جرات مندانہ جدوجہد میں مصروف تھی۔

ہالینڈ کی بغاوت

ہالینڈ کے ایک گاؤں میں قتل عام کا ایک منظر

ہسپانوی ہالینڈ کی بغاوت کو ویت نام کی جنگ اور روسی انقلاب کے آمیزے سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک انتہائی جدید اور خون ریز جنگ تھی، ایک ایسی انقلابی جنگ جس کے دوران ایک مرحلے پر سپین کے بادشاہ نے چند استثناعات کو چھوڑ کر ہالینڈ کی ساری آبادی کو قابلِ گردن زنی قرار دے دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر سے بائبل کا برآمد ہونا ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا انتہائی افسوسناک موت تھی۔ کسی کے منحرف ہو نے یعنی کیتھولک چرچ کے عقیدے سے اتفاق نہ کرنے کی سزا یہ تھی کہ اس شخص کو زندہ جلا دیا جائے۔ لیکن اگر وہ مکمل اعترافِ جرم کر لیتا اور پروٹسٹنٹ ازم سے تائب ہو جاتا تو مقدس ماں(چرچ) اس پر رحم بھی کھا سکتی تھی۔ اس صورت میں مردوں کا سر قلم کر دیا جاتا تھا اور عورتوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہالینڈ کی بورژوازی سپین سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے تجارت و خوشحالی کے علاوہ فنون و ثقافت کے فروغ کے دروازے کھل گئے۔ ہالینڈ کا یہ آرٹ کچھ عجیب و غریب خصوصیات کا حامل تھا۔ ان میں سے بہت سے فن پارے مکمل طمانیت،امن اور سکون کے مظہر ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی جڑیں گزشتہ دور میں پیوست ہیں۔ سپین کے خلاف خوفناک جدوجہد کے بعد ہالینڈ کی بورژوازی جو لمبے تڑنگے خوشحالی تاجروں پر مشتمل تھی، سکون کا سانس لینے کی متمنی تھی۔ وہ ایک ایسا دور چاہتی تھی جس میں وہ امن و سکون کی کیفیت سے حظ اٹھا سکے۔ ان میں سے اکثر تصاویر یہی تاثر دیتی ہیں یعنی ایک ایسے سماج کا تاثر جو انتہائی منظم اور مستحکم ہے۔

یہ وہ دور ہے جب تاریخ میں پہلی بار آرٹ حقیقی معنوں میں روز مرہ زندگی کو پیش کرتا ہے یعنی بورژوا طبقے کی روز مرہ کی پرسکون زندگی۔ بالوں میں کنگھی کرتی، چھوٹا پیانو بجاتی یا خط کا مطالعہ کرتی ہوئی خواتین جو اس مکتب کے عظیم ترین نمائندے ورمیر کی تصاویر میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان مناظر کی انتہائی عام نوعیت ایک گہری نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتی تھی۔ برسبیل تذکرہ یہاں بھی معاشیات اور طبقاتی سماج کی جھلک نظر آتی ہے۔

ایک نئی قسم کی تصویر کشی وجود میں آتی ہے؛ ایک ساکت زندگی۔ عام طور پر اس میں میزوں پر انتہائی اعلیٰ قسم کے کھانے، شراب سے لبریز صراحیاں، سیب اور دیگر انواع و اقسام کے پھل سجے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ پھل اتنے خوبصورت انداز میں بنائے جاتے ہیں کہ آپ کا دل چاہتا ہے ہاتھ بڑھا کر ایک سیب اٹھا کر کھانا شروع کر دیں۔ یہی اس خوشحال ولندیزی تاجر کا پیغام ہے جو کہتا ہے کہ ’لو میں آ گیا ہوں‘۔’دیکھو مجھے کیا کیا نعمتیں میسر ہیں‘۔ ’دیکھو میرے باورچی خانے میں کیا کیا کچھ ہے‘۔ یہاں تک کہ پھولوں کی تصاویر بھی ایک معاشی بنیاد رکھتی ہیں کیونکہ یہ قیاس آرائی یا سٹے بازی کے اولین معاشی بحران کا دور ہے۔ ہالینڈ کے گل لالہ (Tulip) کا سکینڈل جب ہر کوئی پھولوں کا دیوانہ تھا اور پھول انتہائی گراں قیمت تھے۔

(جاری ہے) 

Viewing all 24 articles
Browse latest View live