Quantcast
Channel: Art – Lal Salaam | لال سلام
Viewing all 24 articles
Browse latest View live

فن اور طبقاتی جدوجہد ۔ آخری حصہ

$
0
0

|تحریر: ایلن ووڈز|

(ہم فن اور طبقاتی جدوجہد کے موضوع پر ایلن ووڈز کے خطاب کے ٹرانسکرپٹ  کا دوسرا اور آخری حصہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ خطاب جولائی 2001ء میں بارسلونا، سپین میں منعقدہ مارکسی سکول میں کیا گیا۔)

حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

زر اور فن
اس نئے آرٹ کی بنیاد ایک نیا صارف طبقہ ہے،خوشحال تاجر،جس کے پاس بہت بڑا گھر ہے جس میں بہت سی دیواریں ہیں جنہیں ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔ہر جگہ تصویریں ہی تصویریں تھیں، دکانوں میں، سراؤں میں اور شراب خانوں میں۔اب آرٹ کوئی اسرار نہیں رہا تھا جیسا کہ ’’فن برائے فن‘‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے۔ یہ تجارت خیال کی جاتی تھی جیسے کسی بھی قسم کی تجارت ہوتی ہے۔ ورمیر نے اپنے آبائی قصبے ڈلفٹ کی بہت سی تصاویر بنائی تھیں۔ اس قصبے کے نانبائی کے پاس اس کی دو تصاویر تھیں جن کی مالیت اس وقت لاکھوں پاؤنڈ ہے۔ اس نانبائی کے پاس یہ تصاویر اس لیے موجود تھیں کہ انہیں روٹی خریدنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا کیونکہ ورمیر کے پاس روٹی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ بہت سے عظیم فنکاروں کی طرح وہ بھی غربت کے عالم میں اس جہاں سے رخصت ہوا اور آج سرمایہ دار حضرات ان تصاویر کے عوض لاکھوں کما رہے ہیں۔
سرمایہ داری کے ابھار کے ساتھ ساتھ ہمیں زر کی اہمیت، لالچ اور اشیاء کی ملکیت کی خواہش کے عناصر فروغ پاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سترھویں صدی میں انگلینڈ میں بورژوا انقلاب برپا ہوا۔یہاں بھی نئے مذہب اور فنکارانہ تصورات کے ساتھ جاگیر دارانہ مطلق العنانیت کا وہی تصادم دکھائی دیتا

مشہور پینٹر سیموئیل کوپر کے ہاتھ سے بنایا ہوا اولیور کرامویل کاتاریخی پورٹریٹ

ہے۔ ڈچ مصور وان ڈانگ کی بنائی ہوئی تصاویر ملاحظہ فرمائیں جن میں سے کئی ایک نیشنل گیلری میں موجود ہیں۔ یہ انتہائی مزین تصاویر ہیں جن میں نفیس کپڑوں اور زیورات سے لدی پھندی جاگیر دار طبقے کی شخصیات نظر آتی ہیں۔ ان کے دشمن ’Puritan‘ سیاہ لباس زیبِ تن کرتے تھے اور انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ یہاں ہمیں جمالیات کے دو مختلف تصورات،دو مختلف اخلاقیات دکھائی دیتی ہیں جو دو متحارب طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ایک مشہور واقعہ ان دو طبقات کی سوچ کے فرق کو بہت واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ جب انگریز انقلابی اولیور کرامویل نے ایک مصور سے اپنی تصویر بنوائی تھی۔ وہ ایک اچھا بورژوا انقلابی تھا لیکن وہ کوئی خوبصورت شخص ہرگز نہیں تھا۔ کرامویل نے مصور سے کہا تھا’’میری تصویر ایسی ہی بناؤ جیسا کہ میں ہوں، کیل مہاسوں سمیت!‘‘ فن میں ایک نئی روح سما چکی تھی۔ برطانوی انقلاب نے کئی عظیم ادیب پیدا کیے جن میں Paradise Lost کا مصنف جان ملٹن اور اینڈریو مارویل جیسے شاندار شاعر شامل ہیں۔ لیکن میرے پاس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔

قدیم بادشاہت اور فرانسیسی انقلاب
اگر ہم فرانس کو دیکھیں تو یہاں بھی ہمیں دو طبقات کا تصادم نظر آتا ہے اسکے علاوہ آرٹ میں بھی ہمیں دو ثقافتوں کا تصادم دکھائی دیتا ہے۔یقیناًیہ بات میں ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا کہ ہمیں بالکل طے شدہ رشتوں کو متعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، یہ ایک غلطی ہوگی۔ اس کے باوجود بعض اوقات ایک عجیب و غریب اور مسخ شدہ شکل میں آپ کو سماجی رشتوں کے مدہم خدوخال آرٹ میں نظر آئیں گے۔ ہمیشہ نہیں، صرف کبھی کبھی۔ یہاں تک کہ بعض اوقت یہ چیز آپ کو باغبانی جیسے شعبے میں بھی نظر آسکتی ہے۔ کیا آپ کو فرانس میں ورسائی جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ شائد آپ نے وہاں کے مشہور باغات بھی دیکھے ہوں، آپ کو وہاں کیا چیز نظر آئی؟ جیومیٹری کی اشکال اور خطوطِ مستقیم۔
یہ تصور کس چیز کی عکاسی کرتا ہے؟ یہ بھی ایک بیان ہے۔ فرانس کی مطلق العنان جاگیر دار اشرافیہ ہر شے پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھی، یہاں تک کہ فطرت پر بھی۔ ورسائی کے باغات اس تصور کو پیش کرتے ہیں کہ ہم ہر چیز کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم فطرت کو، درختوں کو اور دریاؤں کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ گھاس پر بھی ہماری اطاعت لازم ہے۔ اس تصور کا فن کارانہ اظہار کلاسیکیت (Classicism) ہے جس میں ڈرامے کے لئے انتہائی سخت اور نپے تلے ضابطے بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس کی بنیاد ارسطو کی باتوں کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ ڈرامہ جو چوبیس گھنٹوں پر محیط اور ایک ہی جگہ ہونا چاہیے، اس میں المیہ (Tragedy) اور طربیہ (Comedy) کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے۔ یہ لوگ شیکسپیئر کو جاہل اور وحشی سمجھ کر اس کا مضحکہ اڑاتے تھے کیونکہ وہ المیہ اور طربیہ کو ملا دیتا تھا۔

فرانس کی ملکہ میری جس نے کہا تھا کہ عوام کے پاس روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔ انقلاب کے دوران اس کا سر قلم کر دیا گیا تھا

انقلاب کے وقت فرانسیسی ریاست دیوالیہ ہو چکی تھی اور بادشاہت کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی تھی۔ اس لیے یہ بات کسی حد تک متوقع تھی کہ اس دور میں حکمران طبقے کے آرٹ میں بڑی حد تک فراریت کا عنصر موجود تھا۔ Watteau کی تصاویر میں ہمیں جو غیر حقیقی دنیا نظر آتی ہے وہ خوابوں کی اس دنیا کی بالکل سچی عکاسی ہے جس میں تباہی کے دہانے پر کھڑا فرانس کا زوال پذیر حکمران طبقہ زندگی گزار رہا تھا۔میری انتوانت (ملکہ فرانس) نے اپنی جاگیر میں جھوٹ موٹ کے ’’کھیت‘‘ بنا رکھے تھے جہاں وہ چرواہن کا بھیس بدل کر گھومتی تھی۔ لیکن حقیقی دنیا میں حقیقی فرانس چروا ہے اور چرواہنیں جن مصائب کا شکار تھیں، ملکہ کی مصنوعی دنیا میں ان کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔

حکمرانوں پر ہر شے کو قابو میں لانے یہاں تک کہ خوابوں کی دنیا کو بھی اپنے ماتحت کرنے کا جنون طاری تھا۔ 1789ء میں اس کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ فرانسیسی انقلاب نے ہر شے کو الٹ کر رکھ دیا۔قبل ازیں فرانسیسی انقلاب کی راہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ذریعے ہموار ہوئی تھی جو بالخصوص فلسفے کے حوالے سے کی گئی تھی۔ انقلاب اس جدوجہد کو آرٹ کے شعبے میں لے گیا جہاں ابتدائی طور پر اس کا اظہار ’نئی کلاسیکیت‘ کی شکل میں ہوا جس میں عظیم انقلابی مصور ڈیوڈ کی تصاویر خصوصی اہمیت رکھتی تھیں۔ بعد ازاں اس کا اظہار رومانویت (Romanticism) کی شکل میں ہوا۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پرانی کلاسیکیت اور نئی کلاسیکیت میں فرق کیا ہے؟ فرق موجود ہے۔ مطلق العنانیت کی کلاسیکیت کی بنیاد سلطنت روم کا زوال پذیر آرٹ تھا جبکہ فرانسیسی انقلاب کی کلاسیکیت جمہوریہ روم کے حوالے سے تھی اور اس کا کردار انقلابی تھا۔ اس کو عزم و جرات، مشترکہ مفاد کے لئے ایثار و قربانی اور حب الوطنی کے جذبوں نے جلا بخشی تھی۔ یہ وہ خوبیاں تھیں جن کی انقلابی بورژوازی کو ضرورت تھی تاکہ وہ پرانے نظام کا تختہ الٹ سکے اور یورپ بھر کی بادشاہتوں کے خلاف اپنے اقتدار کا دفاع کر سکے۔

انقلابِ فرانس کے اثرات
انقلابِ فرانس نے صرف فرانس پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پیمانے پر زبردست اثرات مرتب کیے۔انگلینڈ میں بہت سے عظیم شاعروں نے جنم لیا مثلاً بائرن، شیلے، ورڈز ورتھ، کولرج اور سکاٹ لینڈ میں رابرٹ برنز۔ ولیم بلیک ایک انتہائی انوکھا مصنف اور فنکار تھا جو اس دور سے اتنا آگے تھا کہ اسے دیوانہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر مجھ سے غلطی نہیں ہو رہی تو اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام پاگل خانے میں گزارے تھے۔اور اب اسے ایک عظیم فنکار اور مصنف تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان سبھی عظیم مصنفین نے زبردست جوش و خروش کے ساتھ انقلابِ فرانس کی حمایت کی تھی اگرچہ ایسا کرنا خطرناک تھا۔ برطانیہ میں جبر کی کیفیت بہت خوفناک تھی۔ ولیم بلیک نے لکھا تھا کہ اگر یسوع مسیح برطانیہ میں موجود ہوتے تو انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا۔ ورڈز ورتھ انقلاب کے وقت فرانس میں موجود تھا اور اس نے اپنی عظیم نظم ’The Prelude‘ میں کہا تھا کہ :

’’ اس صبحِ صادق کے وقت زندگی سعادت تھی
لیکن نوجوانی جنت مکانی سے کم نہ تھی۔‘‘

بعد ازاں جب انقلابی ریلا پیچھے ہٹ گیا اور بونا پارٹسٹ رجعت پرستوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا کولرج اور ورڈز ورتھ نے اس راستے کو ترک کر دیا۔ روسی انقلاب کی سٹالنسٹ سیاسی ردِ انقلاب کے ہاتھوں بربادی کے بعد بھی کچھ اسی قسم کی کیفیت دیکھنے میں آئی تھی لیکن ہر کسی نے شکست تسلیم نہیں کی۔شیلے ایک زبردست شاعر تھا جو نوجوانی میں ہی المناک موت کا شکار ہو گیا تھا۔ مارکس شیلے کا زبردست مداح تھا جو اپنے انقلابی عقائد پر سختی سے قائم رہا۔ عظیم سکاٹش شاعر رابرٹ برنز بھی اسی طرح ڈٹا رہا۔ صرف برطانیہ میں ہی نمایاں مصنفین اور فنکاروں نے انقلابِ فرانس سے تحریک حاصل نہیں کی۔ جرمنی میں گوئٹے اور شلر نے بھی جوش و خروش سے انقلابِ فرانس کو خوش آمدید کہا اور موسیقی کے شعبے میں تاریخ کے عظیم ترین موسیقار لڈوگ وان بیتھوون نے انقلابِ فرانس کے مقاصد کی حمایت تمام عمر جاری رکھی اور اس کے پاؤں کبھی نہیں لڑکھڑائے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا انقلاب کے تصور کو موسیقی کے تصور کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ بیتھوون موسیقی کے شعبے سے تعلق رکھنے والا انقلابی تھا اور انقلاب سے تحریک حاصل کرتا تھا۔ اگر آپ بیتھوون کی موسیقی (Symphonies) کا موازنہ سابقہ موسیقی سے کریں تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ یہ بالکل نئی ہے۔ اور سارے عظیم فن کا جوہر یہ ہے کہ اس میں کوئی نئی بات ہونی چاہیے، کوئی ایسی چیز جو ہم سے کوئی نئی بات کہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ شائد بیتھوون کی تیسری سمفنی کی کہانی سے واقف ہوں جسے ’’Eroica Symphony‘‘ یعنی ایک ہیرو کی سمفنی کہا جاتا ہے۔ اس موسیقی میں ہمیں انقلابِ فرانس کی حقیقی روح ملتی ہے۔ شائد آپ سمجھتے ہیں کہ میں مبالغہ آرائی کر رہا ہوں لیکن اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔بیتھوون کا خیال تھا کہ نپولین انقلابِ فرانس کا ہی تسلسل ہے اور وہ اپنی تیسری سمفنی نپولین کے نام سے منسوب کرنا چاہتا تھا۔ در حقیقت وہ اس کا نام نپولین کی سمفنی رکھنا چاہتا تھا۔
ابھی وہ اسے لکھ ہی رہا تھا کہ اسے نپولین کے شہنشاہ بننے کی خبر ملی۔ اس نے فوراً ہی قلم اٹھایا اور نپولین کا نام کاٹ دیا۔ کاغذ کا یہ ٹکڑا اب بھی موجود ہے جسے عجائب گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس نے یہ نام اس قدر غصے کے عالم میں کاٹا ہے کہ کاغذ میں سوراخ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی سمفنی کا نیا نام رکھا۔ایک ہیرو کی یاد میں۔
آپ میں سے بہت سے لوگ شائد کلاسیکی موسیقی پسند نہیں کرتے۔ یہ افسوس کی بات ہے۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ سمفنی کو آغاز سے محض دو سیکنڈ کے لئے سنیں۔ یہ موسیقی میں ایک انقلاب ہے۔ اس سے پہلے لوگ،ظاہر ہے کہ امیر لوگ، موسیقی (Symphonic Concert) سننے کے لئے جاتے تھے اور وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ سو جاتے تھے یا چند خوشگوار دھنیں گنگناتے گھر چلے جاتے تھے۔ آپ بیتھوون کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہیں کر سکتے۔ اور ہیرو کی سمفنی کا آغاز دو بھاری حربوں سے ہوتا ہے جیسے کوئی میز یا دروازے پر مکے مار رہا ہو۔ یہ موسیقی نہیں اور نہ ہی کوئی ٹیون یا تان ہے۔ یہ توجہ دلانے بلکہ ہتھیار اٹھانے کی دعوت ہے۔
بیتھوون کی پانچوں سمفنی بہت جانی پہچانی ہے۔ اس کا آغاز ایک انتہائی مشہور تھیم یا موضوع سے ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی تان نہیں ہے۔ ایک ڈچ موسیقار کا کہنا ہے کہ ’’یہ کوئی موسیقی نہیں ہے۔یہ سیاسی ایجی ٹیشن ہے۔ یہ ہم سے کہتی ہے کہ یہ دنیا بری ہے۔ خراب ہے ہمیں اس دنیا کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ اٹھو چلو !‘‘ یہ میرا نہیں ہارننکورٹ کا کہنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک انگریز موسیقار جان ایلیٹ گارڈنر نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ بیتھوون کی پانچویں سمفنی کی بنیاد فرانسیسی انقلابی گیتوں پر رکھی گئی ہے۔ ہاں، موسیقی انقلاب کا اظہار کر سکتی ہے اور انقلاب کا اظہار کرتی ہے۔
فنکار اور سماج کے درمیان تعلق جدلیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ آرٹ فرد کے اندر سے ابھرنا چاہیے۔ اس کے دل کی آواز ہونا چاہیے۔ لیکن ایسے لمحات بھی آ سکتے ہیں جب کسی فرد کے داخلی تضادات وسیع تر سماجی تضادات سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ اور اس سے عظیم آرٹ تخلیق ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ بیتھوون کی مثال سے ظاہر ہے۔ بیتھوون کی ذاتی زندگی المیوں سے بھری پڑی تھی۔ اٹھائیس سال کی عمر میں وہ بہرے پن کا شکار ہو گیا۔ اپنی نویں سمفنی کی تکمیل تک وہ مکمل طور پر بہرہ ہو چکا تھا۔
اس کی زندگی اذیت سے عبارت تھی جس کا عکس ہمیں بلاشبہ اس کی موسیقی میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بیتھوون ایک نابغہ روزگار تھا۔ اسکی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو برباد ہو جاتا لیکن وہ نہ صرف یہ کہ برباد نہیں ہوا بلکہ اپنی ذاتی صورتحال سے بلند تر ہوتا گیا اور اس نے اپنی موسیقی میں ذاتی مسائل کو نہیں بلکہ جبر و ستم کی شکار انسانیت کو درپیش المیوں اور تضادات کو اجاگر کیا۔

رومانویت (Romanticism)
انیسویں صدی کے اول نصف کے دوران حاوی فنکارانہ رجحان رومانویت کا تھا۔ رومانویت کا مطلب کیا ہے؟ وہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے؟
فرانس نے 1789-93ء میں ایک زبردست چھلانگ لگائی۔ اس نے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی بنیاد پر ساری نسلِ انسانی کو ایک بہتر مستقبل کا خواب دیا۔ یہ بہت اعلیٰ مقاصد پر مبنی نعرے تھے۔ بورژوازی نے انہیں عوام کو لڑائی پر اکسانے کے لئے استعمال کیا۔ لیکن اس دور کی پیداواری قوتوں کی سطح کے پیش نظر انقلابِ فرانس ایک بورژوا انقلاب کی شکل میں سامنے آیا اور یہ صرف ایک بورژوا انقلاب ہی ہو سکتا تھا۔ بورژوا حکمرانی کے مستحکم ہوتے ہی فنکاروں اور اہلِ فکر کے وہ تمام خواب چکنا چور ہو گئے جنہیں انقلاب نے جنم دیا تھا۔ آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی بجائے انہیں بینکاروں، تاجروں اور سود خوروں کی حکمرانی ملی۔ سماج پر بورژوا طبقے کی سنگدلانہ لالچ کا غلبہ تھا جس کی عکاسی بالزاک نے اپنے ناولوں میں بہت عمدہ طریقے سے کی ہے۔
اس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر بہت سے فنکاروں اور ادیبوں نے ایک قسم کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ بورژوا طبقے اور دولت کی حکمرانی کے خلاف اٹل جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔ اور بلاشبہ آرٹ کو ہمیشہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ حقیقی آرٹ کو آزادانہ طور پر اس چیز کا اظہار کرنا چاہیے جو میرے اندر موجود ہے نہ کہ کوئی ایسی چیز جو کسی بھی طور پر باہر سے جبراً لاگو کی گئی ہو۔کیونکہ اس قسم کا آرٹ ہمیشہ خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا آرٹ ریاستی غلبے کو بھی اسی طرح مسترد کرتا ہے جیسے وہ مذہب اور چرچ کی آمریت کو مسترد کرتا ہے۔ وہ منڈی کی غنڈہ گردی کو مسترد کرتا ہے جو کہ فن اور تخلیق کی اٹل دشمن ہے۔ 1848ء کے انقلاب کی شکست تک یعنی انیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بہت سے فرانسیسی شاعر اور ادیب ایسے تھے جن میں انقلاب کی تڑپ موجود تھی۔ ڈیلا کوا، گوٹیئے، ڈومئے اور بودیلیئر سبھی نے 1848ء کے انقلاب کی حمایت کی اور اس میں حصہ لیا۔برسبیل تذکرہ میں موجودہ موضوع کے حوالے سے آپ کو تھوڑا سا حیران کرنا چاہتا ہوں۔ جرمنی میں جن لوگوں نے سرگرمی سے انقلاب میں حصہ لیا ان میں ایک نوجوان موسیقار بھی شامل تھا جس کا نام رچرڈ واگنر تھا۔ اس وقت وہ باکونن نامی انارکسٹ کا ذاتی دوست تھا۔اور اس نے ایک قدرے طویل اور اچھا مضمون تحریر کیا جس کا نام تھا ’’ سوشلزم اور آرٹ‘‘، اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ سچا آرٹ اور موسیقی سرمایہ داری سے میل نہیں کھاتے۔
تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے فنکاروں کی اکثریت محنت کش طبقے اور 1848ء کے انقلاب کے ساتھ تھی لیکن پیٹی بورژوازی ایک انتہائی غیر متوازن طبقہ ہے۔ خاص طور پر دانشور نہایت ہی غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی شکست کے بعد وہ دل برداشتہ ہو گئے۔ محنت کش طبقے پر ان کا اعتماد تیزی سے ختم ہو گیا اور وہ داخلیت کا شکار ہو گئے۔ یہ ہے ’’فن برائے فن‘‘ کے نام کی تھیوری کی تاریخی بنیاد جس کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا تھا۔
علامتیت (Symbolism) کی تحریک کا بانی دراصل بودیلیئر تھا جو ایک انتہائی زبردست شاعر تھا۔ لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا اعتماد 1848ء کے بعد انقلاب سے اٹھ گیا تھا۔ اس نے داخلیت کا شکار ہو کر جنسیت اور تصوف جیسی چیزوں کو اپنا موضوع بنا لیا جیسا کہ ہر انقلاب کی شکست کے بعد اکثر و بیشتر دانشور کرتے ہیں۔ آپ کو یہ مظہر بارہا دیکھنے کو ملے گا۔
میں آپ کو ذاتی زندگی سے ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ میں 1975ء کے انقلاب کے موقع پر پرتگال میں تھا۔ پچاس سالہ فاشسٹ آمریت کے بعد اس وقت محنت کشوں کی ایک زبردست تحریک موجود تھی۔ لزبن کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے آپ کو سینکڑوں لوگ گرما گرم سیاسی بحثیں کرتے نظر آتے تھے اور کتابوں کی دکانیں مارکس، لینن، ٹراٹسکی اور ماؤزے تنگ کی کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ انقلاب کی شکست کے چند سال بعد جب میں دوبارہ وہاں گیا تو بائیں بازو کی تمام کتابیں غائب تھیں اور ان کی جگہ فحش، مذہبی اور صوفیانہ کتابوں نے لے لی تھی۔
انقلاب کی شکست کے بعد رجعتی ثقافتی رجحانات کا ابھرنا ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن جب گہرے سماجی بحرانوں کے باعث انقلاب کی لہر واپس آتی ہے تو آپ کو دانشوروں کے حلقے میں وہی پہلے جیسا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے لیکن مجھے اپنی بات مختصر کرنی پڑے گی۔ کیونکہ ہم نے اس موضوع سے بھی نپٹنا ہے کہ آج فن کا مقام کیا ہے اور ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کرنی ہے کہ آیا فن اور طبقاتی جدوجہد کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے۔

فن اور طبقاتی جدوجہد
اس سوال کے کئی مختلف جوابات دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا ہمیں تمام آرٹ کو مارکسی نظریئے اور طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے پرکھنا چاہیے تو میرے خیال میں ایسا کرنا مضحکہ خیز ہوگا۔ آرٹ لازمی طور پر انقلابی نہیں ہوتا اور ہمیں ایسا عظیم ادب بھی مل سکتا ہے جو قدامت پسندانہ یا رجعتی ہو۔ ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
فرانسیسی ادیب بالزاک جو کہ مارکس کا پسندیدہ ناول نگار تھا سیاسی طور پر قدامت پرست تھا بلکہ وہ مطلق العنانیت کا حامی تھا۔ تاہم جیسا کہ مارکس نے بھی کہا کہ وہ ایک ایسا عظیم حقیقت نگار تھا کہ آپ کسی بھی دوسری تحریر کے مقابلے میں اس کے ناولوں کو پڑھ کر انیسویں صدی کے اول نصف کی فرانسیسی تاریخ کے بارے میں زیادہ جان سکتے ہیں اور انقلابی نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کی تاریخ میں بھی بعض اوقات آرٹ نے انقلابی تصورات کی عکاسی کی ہے۔ مثال کے طور پر پابلو پکاسو کوئی سیاسی آدمی نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ اسے پسند بھی نہ کرتے ہوں لیکن وہ ایسا شخص تھا جس نے پچھلی صدی کے آغاز میں سپین کی زرخیز ثقافتی زمین پر پرورش پائی تھی۔ یہ سپین میں زبردست شورش کا زمانہ تھا۔ پکاسو، فیڈریکو گارسیا لورکا کا دوست تھا جو بائیں بازو سے ہمدردی رکھتا تھا۔ لورکا غالباً جدید سپین کا عظیم ترین شاعر تھا جو فاشسٹوں کے ہاتھوں 1936ء میں قتل ہو گیا تھا۔
اس ملک میں بہت سے فنکار، شاعر، ادیب اور موسیقار ایسے پیدا ہوئے ہیں جن پر سماج کے عمومی ابھار نے اثرات مرتب کئے تھے۔ انہوں نے 1931-37ء کے انقلاب میں حصہ لیا اور ان میں سے کچھ لڑاکا بھی تھے۔ خاص طور پر میگیل ہر نانڈیز جو ایک عظیم شاعر تھا اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی زندگی فاشسٹوں کی قید میں تمام ہوئی۔
آیئے ایک لمحے کیلئے ہم درمیانے طبقے کے اس احمقانہ تعصب کی جانب واپس لوٹیں کہ عوام کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں اس میں کسی حد تک کچھ صداقت موجود ہے۔ کیونکہ عوام محسوس کرتے ہیں کہ بورژوا کلچر پر حکمران طبقے کا اجارہ ہے۔ یہ ہمارے لئے نہیں ہے۔ یہ کوئی انجان سی چیز ہے جس کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی سوچ موجود ہے۔ اور اس کی وجہ سے عام لوگ بعض اوقات آرٹ اور کلچر کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے لیکن یہی بات سیاست کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ طبقاتی سماج میں معمول کے حالات میں عوام اہم باتیں دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں یعنی مقامی کونسلر، ٹریڈ یونین لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ وغیرہ۔
لہٰذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عوام کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں تو ہم دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ طبقاتی سماج کے معمول کے حالات میں عوام غور و فکر کا کام عمومی طور پر دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے کہ انقلاب کا جوہر ہی یہ ہے کہ عام مرد و زن بڑی تعداد میں سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ خود کو حقیقی انسانوں کی سطح تک بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے کچھ مفادات و ضروریات بھی ہیں، جن کا انہیں قبل ازیں احساس نہیں تھا، کہ ان کا دماغ بھی ہے،ان کی شخصیت بھی ہے،ان میں انسانی وقار بھی ہے اور وہ ایک روح کے مالک بھی ہیں۔ انقلاب کے دوران یہ سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔
میگیل ہرنانڈیز محاذِ جنگ پر جا کر خندقوں میں لڑنے والے ریپبلکن فوجیوں کو اپنی انقلابی شاعری سناتا تھا۔ محنت کش اور کسان ہر جگہ اس کا پر جوش استقبال کرتے تھے۔ ثقافت کے بارے میں دلچسپی عوام کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوتی ہے لیکن یہ غیر منصفانہ اور وحشیانہ طبقاتی سماج اسے جبراً کچل ڈالتا ہے۔ لیکن انقلابی حالات میں یہ ابھر آتی ہے۔ اور ایک حقیقی انقلابی رجحان کے لئے ضروری ہے کہ اس کو سمجھے اور اس کو دل وجان سے عزیز رکھ کر پروان چڑھائے۔
سرریلزم (Surrealism) جیسی چیزوں میں ہمیں ایک مسخ شدہ شکل میں انقلاب کا عکس نظر آتا ہے۔ دادایت (Dadaist) کی تحریک سرریلسٹ تحریک کی پیش رو تھی جو پہلی عالمی جنگکے لگ بھگ بالخصوص جرمنی میں ابھری جہاں کچھ نمایاں فنکاروں اور ادیبوں نے عسکریت پسندی اور سرمایہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ انہوں نے کئی شاندار شاہکار تخلیق کئے۔ میرے ذہن میں خاص طور پر جارج گروس،کرٹ ویل اور برٹولڈ بریخت کے نام آ رہے ہیں۔ آخرالذکر دو ادیبوں نے مل کر ’’Threepenny Opera‘‘ لکھا تھا جو ایک مشہور نغمے ’میک دی نائف‘ (Mack the Knife) سے شروع ہوتا ہے۔
اس اوپرا میں جو گانے ہیں ان میں کچھ انتہائی شاندار مصرعے موجود ہیں خاص طور پر آخری گانے میں:

’’چونکہ کچھ لوگ اندھیرے میں رہتے ہیں اور کچھ لوگ روشنی میں،
آپ کو وہی نظر آتے ہیں جو روشنی میں ہوتے ہیں،
آپ کو وہ دکھائی نہیں دیتے جو اندھیرے میں رہتے ہیں۔‘‘

دادایت اور سرریلسٹ تحریکوں نے سرمایہ داری کے تضادات کو چبھنے والی مضحکہ خیز شکلمیں اجاگر کیا۔ ٹراٹسکی اس فن و ادب کی انقلابی صلاحیت سے بخوبی آگاہ تھا، خاص طور پر ادب اور سماج میں آمریت (فاشسٹ اور سٹالنسٹ) کے خلاف ہتھیار کی حیثیت سے وہ سرریلسٹ

تحریک میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ درحقیقت اس نے فرانسیسی سرریلسٹ آندرے بریٹن کے ساتھ مل کر فن اور انقلاب پر ایک مینی فیسٹوبھی تحریر کیا تھا۔
یہاں تک کہ کیوب ازم (Cubism) بھی کسی نہ کسی طور سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کس چیز کی عکاسی کرتا ہے؟ جنگیں اور انقلابات زبردست ہیجان ہوتے ہیں جو ہر شے کو تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں،لوگوں کے ذہن اور زندگیاں تبدیل کر دیتے ہیں۔ لوگ دنیا کو بالعموم کس طرح دیکھتے ہیں، کیوب ازم اس میں ایک گہری تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ 1914ء سے پہلے سرمایہ داری میں بتدریج ابھار کا ایک طویل دور آیا تھا۔ یہ کسی حد تک اس دور سے مشابہہ تھا جو ابھی ابھی گزرا ہے۔ اور پھر یکا یک یہ خواب، یہ سراب پہلی عالمی جنگ اور روسی انقلاب نے چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کے بعد جرمنی اور ہنگری میں انقلاب آئے اور پھر اٹلی میں فاشزم کو عروج حاصل ہوا۔ ان باتوں نے لوگوں کی دنیا کو پارہ پارہ کر دیا۔ یہاں تک کہ انتہائی قدامت پرست افراد کی نفسیات بھی تبدیل ہو گئی۔یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی عکاسی آرٹ میں نہ ہوتی؟

آئیں ایک لمحے کے لئے پہلی عالمی جنگ سے پہلے کے آرٹ کو ذہن میں لائیں۔ اس وقت غالب رجحان تاثریت یا ارتسامیت (Impressionism) کا تھا جس نے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں فرانس میں جنم لیا تھا۔ ذاتی طور پر مجھے تاثریت پسند ہے۔ یہ ایک پر سکون اور پر امن تصور پیش کرتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں پھول ہیں، دھوپ ہے اور لان میں پکنک منائی جا رہی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اس قسم کی دنیا کی جانب واپسی کس طرح ممکن تھی؟ اس کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا تھا؟
پکاسو نے شروع شروع میں یعنی نام نہاد ’Blue Period‘ کے دوران جو تصاویر بنائی تھیں ان میں آپ کو غریبوں کی دنیا کی ایک ایسی جھلک دکھائی دے گی جس میں رحم دلی کا جذبہ موجزن ہے۔ ان میں زبردست تکنیکی مہارت نظر آتی ہے اور ایک وزن کا احساس بھی موجود ہے۔ ایک تصویر میں کرتب دکھانے والی لڑکی کو بہت بڑی گیند کے اوپر دکھایا گیا ہے۔ پیش منظر میں ایک زبردست ورزشی جسم کا مالک مرد اتھلیٹ ہے جو ایک بہت بڑے بلاک پر بیٹھا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا لڑکی تیر رہی ہے اور کششِ ثقل سے بے نیاز ہے۔ جبکہ دوسرا جسم ایک قسم کے وزن یا نیچے کی جانب کھینچنے والی کششِ ثقل کا احساس دلاتا ہے۔
یہ تکنیکی، کم و بیش جیومیٹری جیسی جہت رفتہ رفتہ ایک نئے مکتبہ فکر کی شکل اختیار کر گئی۔ انسانی جسم کو ایک عام سے انداز میں دکھایا جاتا ہے جسے ہم حقیقت نگاری (Realism) کہتے ہیں۔ انسانی ہیئت کو مختلف زاوئیوں سے یوں دکھایا جاتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ممکن نہیں۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ آرٹ نہیں ہے۔ لوگ اس طرح کے تو نہیں ہوتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاؤں یہاں ہو، ایک ہاتھ کہیں ہو اور سر کے دونوں جانب چہرہ ہو؟
تاہم عظیم آرٹ کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ چیزوں کو اسی طرح پیش کر دیا جائے جیسی وہ ہیں یا بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فلسفے کے لئے ضروری قرار دے دیا جائے کہ وہ چیزوں کو جوں کا توں پیش کرے۔ آرٹ اور فلسفے کا حقیقی نصب العین یہ ہے کہ دنیا کی دکھنے والی ظاہریت کا نقاب نوچ کر حقیقت اور افراد کو اسی طرح دکھایا جائے جیسے وہ واقعتا ہیں۔
یہ پکاسو نہیں تھا جس نے لوگوں کو ان اجزائے ترکیبی میں تقسیم کیا۔ 1914ء سے 1918ء کے درمیانی دور میں وردیوں میں ملبوس کروڑوں افراد کو دھماکہ خیز مواد اور سنگینوں کی مدد سے کاٹ کر ان کو اجزائے ترکیبی میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اگر یہ آرٹ صدمے کا باعث ہے تو یہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے سماج کے مقابلے میں کہیں کم صدمے کا باعث ہے۔
میرے ذہن میں پکاسو کی ایک تصویر خاص طور پر آ رہی ہے جسے ’’The Portrait of Lady‘‘ کہا جاتا ہے۔ غور فرمایئے کہ یہ کسی عورت کی تصویر نہیں بلکہ ’’خاتون‘‘ کی تصویر ہے۔اس میں جنسی اعضاء کو مبالغہ آمیز انداز میں بڑا کرکے پیش کیا گیا ہے مثلاً چھاتیاں وغیرہ لیکن اس کے ہاتھ نہیں ہیں۔ اس خاتون کے ہاتھ کیوں نہیں ہیں،کیوں کہ خاتون کام نہیں کرتی۔اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کا واحد فریضہ افزائش نسل کیلئے استعمال ہونے والے جانور کی حیثیت سے خدمات انجام دینا ہے۔ برسبیل تذکرہ پکاسو نے ایک بار اپنے مطالعے کے کمرے کے دروازے پر یہ تحریر چسپاں کی تھی کہ’’میں کوئی بھلا مانس نہیں ہوں‘‘۔ اس سلسلے میں مزید گفتگو ہو سکتی ہے مگر میرے پاس وقت نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پکاسو کا عظیم ترین شاہکار اس کی پینٹنگ ’گوورنیکا‘ (Guernica) تھی۔ یہ غالباً تاریخ کا پر زور ترین فنکارانہ اعلامیہ ہے۔ پکاسو نے ایک بار کہا تھا کہ آرٹ آرائش و زیبائش کیلئے نہیں ہے۔ اسے جدوجہد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس تصویر کو غور سے دیکھیں جس میں باسک قصبے پر بمباری کی دہشت ناکی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ لڑاکا آرٹ کی بہترین مثال ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ آرٹ لڑاکا ہو سکتا ہے۔

Guernica

بیسویں صدی نے ڈیگوریویرا جیسے کئی لڑاکا فنکار پیدا کیے ہیں۔ اور کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ٹریڈ یونین کے، نوجوانوں کے اور دیگر قسم کے کاموں کے ساتھ ساتھ ہم جدید ادیبوں اور فنکاروں میں موجود بہترین عناصر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ انہیں محنت کش طبقے کے لڑاکا اتحادیوں میں تبدیل کیا جا سکے؟ مجھے پختہ یقین ہے کہ آرٹ ایک انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہم فنکاروں میں موجودبہترین عناصر کے ساتھ کھلے دل و دماغ کے ساتھ مکالمے کرنے کو تیار ہیں تاکہ انہیں محنت کش طبقے کی سرگرم خدمت کی غرض سے اپنے ساتھ جوڑا جا سکے۔

آرٹ اور اکتوبر انقلاب
کارل مارکس نے ایک بار کہا تھا کہ انقلاب تاریخ کو چلانے والا انجن ہے۔ اور اکتوبر انقلاب بذاتِ خود اس کا ایک شاندار ثبوت ہے۔ روسی انقلاب ایک ایسا زلزلہ تھا جس نے ہر حوالے سے انسان کو آزاد کیا۔ اس نے محض پرولتاریہ کو ہی نہیں بلکہ عورتوں، محکوم قوموں، یہودیوں اور بذاتِ خود آرٹ کو آزادی دلائی۔
اکتوبر انقلاب نے آرٹ کو جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا۔ بالشوازم کے دشمنوں کی دشنام طرازیوں کے برعکس بالشویکوں نے کبھی بھی آرٹ پر اپنی پارٹی لائن مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اکتوبر انقلاب کے بعد کی دہائی پر جوش اور آزادانہ مباحث، تجربات اور دریافتوں کی دہائی تھی۔ روسی انقلاب کے بعد کے سالوں،بالخصوص 1920ء کی دہائی میں فنکاروں کی ایک کہکشاں تھی جس نے فن کے آسمان کو روشن کر دیا تھا۔آرٹ اور کلچر کو شاندار فروغ حاصل ہوا۔ ہمیں مایا کووسکی کی نظمیں ملتی ہیں جو ایک عظیم انقلابی شاعر تھا اور 1905ء سے بالشویکوں میں شامل تھا۔ اسے انقلاب کا نقیب بھی کہا جاتا تھا۔
اکتوبر انقلاب کے بعد ایک شاندار احیاء کا آغاز ہوا۔ تھیٹر میں مئیر ہولڈ، سینما میں آئزن سٹائن جسے میں تاریخ کا عظیم ترین ہدایت کار سمجھتا ہوں، موسیقی میں شوستا کووچ جسے محض انقلاب کے بعد موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع حاصل ہوا اور اس نے 1928ء میں غالباً 26 سال کی عمر میں پہلی سمفنی تحریر کی۔
آئزک بیبل جیسے انوکھے ادیب جس نے خانہ جنگی پر ایک شاندار کتاب ’’Red Cavalry‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔مایا کووسکی کا میں نے ابھی ذکر کیا لیکن اس کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جو بالشویک نہیں تھے لیکن انقلاب کے زیرِ سایہ پھلے پھولے۔
لیکن یہ خوبصورت اور خوشبودار پھول سٹالنزم کے بوٹ تلے بری طرح کچلا گیا۔ میرہولٹ کا انتقال ایک جبری مشقت کے کیمپ میں ہوا،بیبل بھی جبری مشقت کے کیمپ میں مرا،مایا کووسکی نے خود کشی کر لی، مینڈل شٹم بھی جبری مشقت کے کیمپ میں مارا گیا۔ ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے فنکاروں اور ادیبوں کی جو ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔کلچر کے شعبے میں سٹالنزم نے جو جرائم کئے ہیں یہ اس کی محض ایک جھلک ہے۔

آرٹ اور سوشلزم
اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں کافی طویل گفتگو کر رہا ہوں پر جن نکات پر میں بات کرنا چاہتا تھا ان کا چوتھا حصہ بھی نہیں کر پایا۔ لیکن سوشلزم کے تحت آرٹ کے مستقبل کے سلسلے میں کچھ اظہارِ خیال ضرور کروں گا۔ ہمارا بنیادی فریضہ، ہمارا انتہائی ضروری فریضہ سرمایہ داری کا تختہ الٹنا ہے کیونکہ سرمایہ داری کے تسلسل سے محض معاشی زندگی کو ہی خطرہ نہیں بلکہ یہ انسانی تہذیب و ثقافت کیلئے بھی ایک جان لیوا خطرہ ہے۔ کیونکہ گزشتہ دس ہزار سالوں میں اگرچہ انسانی تہذیب نے انتہائی شاندار پیش رفت کی ہے تاہم انسانی کلچر اور تہذیب واقعتا ایک باریک تہہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
تہذیب حقیقت میں بہت نازک ہے اور کلچر کی اس باریک سی جھلی کے نیچے قدیم بربریت کی قوتیں ابھی تک موجود ہیں۔ آپ نے اس کا مشاہدہ ہٹلر کے جرمنی میں کیا ہوگا۔ اور ابھی حال ہی میں ہم نے بلقان کے خطے میں بھی اس کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ اگر محنت کش طبقے نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں نہ لیا تو انسانی تہذیب و ثقافت کا مستقبل شدید خطرے سے دو چار ہو جائے گا۔ لیکن اس سوال کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
جدید حالات میں،پیداواری قوتوں،سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی کے باعث ایک سوشلسٹ انقلاب، خاص طور پر عالمی سطح پر برپا ہونے والا انقلاب تیزی سے ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی طرف لے جائے گا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ سرمایہ داری کے عظیم ترین جرائم میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے عام انسانوں کی ان صلاحیتوں کو کچل کر رکھ دیا ہے جن سے کام لے کر وہ نئی چیزوں کو دریافت کرتے ہیں، تخلیق کرتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کو کبھی یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ ٹراٹسکی نے ایک بار کہا تھا کہ ’’کتنے ارسطو ہیں جو سوروں کے ریوڑ چرا رہے ہیں اور کتنے سور ہیں جو تخت نشین ہیں۔‘‘
صدیوں سے آرٹ پر مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ وسیع تر اکثریت کے سامنے اسے پر اسرار،دشوار اور نا قابلِ رسائی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ فنکار کو ایک خاص قسم کے انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے پیدائشی طور پر نوازا گیا ہے اور وہ ہمارے جیسا نہیں ہے۔ ہم اس بات کی تردید نہیں کرتے کہ ہماری تشکیل میں ایک جینیاتی عنصر موجود ہے جو ہمیں ارتقاء کیلئے خصوصی امکان فراہم کرتا ہے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ ہر کوئی موزارٹ جیسا موسیقار نہیں بن سکتا۔
موزارٹ کی جینیاتی تشکیل ایسی تھی جو اسے ایک عظیم موسیقار بننے کا امکان فراہم کرتی تھی۔لیکن اس امکان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اس ماحول نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس میں اس کی پرورش ہوئی تھی۔ اس کا باپ لیوپولڈ موزارٹ ایک جانا پہچانا موسیقار تھا جو اپنے بچے کو بہت بلندیوں پر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بچپن ہی سے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ موسیقی میں دلچسپی لے۔ اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس بچے موزارٹ میں ایک عظیم موسیقار بننے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن کیا کوئی شخص سنجیدگی سے اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ اگر وہ ایک خوشحال موسیقار کے گھر پیدا ہونے کی بجائے کسی ہندوستانی مزارعے کے گھر پیدا ہوتا تو پھر بھی وہ یہ عظیم موسیقی تخلیق کر پاتا ؟ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں تھا۔
اٹھارہویں صدی کے ایک انگریز شاعر نے کہا تھا:

’’ان گنت بے داغ موتی سمندری غاروں کی تاریک گہرائیوں میں دفن ہیں۔
ان گنت پھول نظروں سے اوجھل کھل کر مرجھا جاتے ہیں
اور صحرا کی باد سموم میں اپنی خوبصورتی لٹا جاتے ہیں۔‘‘

سرمایہ داری کے تحت انسانی صلاحیتیں جس طرح ضائع ہو رہی ہیں انہیں کس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
اگر آپ سوشلزم کی بنیادی تعریف جاننے کے خواہاں ہیں تو آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نسلِ انسانی میں جو صلاحیتیں موجود ہیں انہیں حقیقت کا روپ دیا جائے۔ اگر آپ انسانیت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس میں موزارٹ جیسے فطین انسانوں کی تعداد کس قدر کم ہے۔بہت ہی کم ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا بھر میں جو اربوں انسان بستے ہیں ان میں سے ہر ایک انسان موزارٹ بن سکتا ہے کیونکہ ایسا کہنا غلط ہوگا۔ لیکن اس بات میں رتی بھر شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ان میں بے شمار لوگ ایسے موجود ہیں جن میں مختلف شعبوں میں اس قسم کی فطانت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ذرا اپنے سکول کے دنوں کو یاد کریں۔ وہاں آپ کے جاننے والے کتنے بچے ایسے تھے جو مختلف حالات کے تحت ڈاکٹر، موسیقار، رقاص، فٹبال کے کھلاڑی بن سکتے تھے۔اور ان کا انجام کیا ہوا؟کیا ہم سبھی ایسے خواب نہیں دیکھتے؟ لیکن سرمایہ داری لوگوں کے ان خوابوں کو جلد ہی کچل ڈالتی ہے۔ وہ سنگدل اور وحشی بن جاتے ہیں اور بعض کی حالت تو جانوروں جیسی ہو جاتی ہے۔ نو عمری میں ہی ان کی صلاحیتیں کچل دی جاتی ہیں۔ سوشلزم کا حقیقی معنی یہ ہے کہ ان امکانی صلاحیتوں،انسانی صلاحیتوں کو بار آور کیا جائے۔
کامریڈز سوشلزم کا حقیقی مقصد روٹی کے ٹکڑے کے لئے لڑنا نہیں ہے۔ہم اس کیلئے نہیں لڑ رہے ہیں۔یہ محض پہلا قدم ہے اور یقیناًانتہائی اہم بھی ہے۔ بائبل میں لکھا ہے ’’انسان محض روٹی کھا کر ہی زندگی نہیں گزارے گا‘‘ اور درحقیقت انسان کبھی بھی محض روٹی کیلئے زندہ نہیں رہا۔ سوشلسٹ سماج میں مردو زن غربت اور محرومی سے آزاد ہوں گے اور ان کے پاس حقیقی معنوں میں انسان بننے کے لئے درکار وقت کی بھی کمی نہیں ہوگی۔ پہلی بار وہ خود کو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ترقی دینے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کیلئے آزاد ہوں گے۔
آپ ذرا غور کریں کہ کتنی زبردست تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں گی۔ اس کی حاصلات کے مقابلے میں نشاۃِثانیہ بچوں کا کھیل معلوم ہوگی۔ تاریخ میں پہلی بار آرٹ از سرِ نو زندگی کا حصہ بنے گااور عجائب گھروں کی چاردیواری تک محدود نہیں رہے گا۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ عجائب گھر آرٹ کیلئے جبری مشقت کے کیمپوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضروری ہے کہ آرٹ کو اس قید خانے سے آزاد کروا کر زندگی سے دوبارہ جوڑا جائے۔آآرٹ اور مستقبل
اکیسویں صدی کے آغاز پر انسانیت کو ایک انتہائی اہم مسئلے یعنی نام نہاد عالمگیریت کا سامنا ہے۔معاشی کے ساتھ ساتھ اس کے ثقافتی پہلو بھی ہیں۔ مارکسی ہونے کے ناطے ہم بین الاقوامیت پسند ہیں اور ہمارے اندر قوم پرستانہ تعصب کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری کا ارتقاء عالمی معیشت کے رجحان کو پیدا کرے گا جس سے بالآخر ایک عالمی کلچر نمودار ہوگا۔
یہ بات کسی حد تک پہلے ہی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ پچھلے بیس تیس سالوں میں عالمی سطح پر ایک زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ عملاً آپ جہاں بھی جائیں، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں اور روز افزوں کم ترقی یافتہ ممالک میں بھی، نوجوان ایک جیسے کپڑے پہنتے ہیں، ایک جیسی موسیقی سنتے ہیں اور معیار کی یکسانیت کی طرف ایک عام رجحان پایا جا رہا ہے۔ یہ اچھی چیز ہے یا بری؟ اس مسئلے پر ہمیں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ ہم ایک جاہلانہ قوم پرستی پر مبنی موقف کا شکار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ بہت سی گندگی اور غلاظت کی صفائی کے نتیجے میں بالآخر سوشلزم کے تحت ایک عالمی انسانی کلچر تشکیل پائے گا۔ تاہم سرمایہ داری کے تحت اس عالمی ’’کلچر‘‘ کا گھناؤنا ثقافتی غلبہ ہے جو اپنے منافع خوری کے مفادات کے لئے تمام دوسری ثقافتوں کو کچلتا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہو سکتی۔
برسبیل تذکرہ یہاں کسی نے ’’مزدوروں کی موسیقی‘‘ یا ’’مزدوروں کے آرٹ ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ حقیقت میں اس قسم کی چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ مارکس نے بہت پہلے وضاحت کر دی تھی کہ ہر عہد کے غالب خیالات حکمران طبقے کے خیالات ہوتے ہیں۔ اور ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ پرولتاریہ انقلاب سے پہلے اپنا کلچر تخلیق نہیں کر سکتا کیونکہ سرمایہ داری کے تحت اس کے حالاتِ زندگی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ دوسری جانب سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کے بعد جو کلچر ابھرے گا وہ مزدوروں کا کلچر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک انسانی اور سوشلسٹ کلچر ہوگا۔
کامریڈز ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نظروں کو ذرا بلند کریں اور اپنے افق کو وسیع تر کریں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ موجودہ غلاظت،موجودہ بحران اور کرۂ ارض کے ساتھ موجودہ بلادکار کے نتیجے میں ایک نئی چیز بھی نمودار ہونے کو ہے۔ تاریخ میں جب بھی کوئی نظام موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح بحران کا شکار ہوتا ہے تو اس حقیقت کا اظہار کئی طریقوں سے ہوتا ہے۔ خاندان کا بحران، اخلاقیات کا بحران، ثقافت کا بحران اور اب سرمایہ داری کے تحت یہ سبھی عناصر موجود ہیں۔
گلنے سڑنے کے عمل کے ساتھ ساتھ زوال اور بیماری کا عام احساس بھی پایا جا رہا ہے جس نے آرٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس وقت جو فن تخلیق ہو رہا ہے ذرا اس کو ملاحظہ فرمائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک کھلے ذہن کا شخص ہوں، میں فنکارانہ تجربات کے حق میں ہوں، مجھے نئے خیالات میں دلچسپی ہے لیکن جب میں لندن میں فنکاروں کی نمائش میں جاتا ہوں جہاں ایک مردہ بھیڑ کو محفوظ کرنے والے محلول میں ڈال کر اسے ایک فن پارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو میں تذبذب میں پڑ جاتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ یہ بھی زوال پذیری اور گراوٹ کی ہی علامت ہے کہ لوگ اس کیلئے بہت سا پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ کچھ فنکاروں نے اپنے بول و براز سے فن پارے تخلیق کئے ہیں۔ میں یہ بات مکمل سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انہیں منڈی میں فروخت کرنے کیلئے رکھا جاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان سے بہت سا پیسہ بنایا جاتا ہوگا۔ انگریزوں کے ہاں ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’’جہاں غلاظت کا ڈھیر ہو وہاں پیتل بھی ہوتا ہے۔‘‘ اور سرمایہ داری کی دنیا میں جہاں بول و براز ہے وہاں پیسہ ہے۔ بورژوا طبقہ ہمیشہ کی طرح کسی بھی چیز سے پیسہ بنا سکتا ہے۔
اگر فن ایک آئینہ ہے جس میں سماج اپنا عکس دیکھ سکتا ہے تو یہ چیز پوری ایمانداری سے اکیسویں صدی کے بورژوا سماج کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ کلچر کے بحران اور اس کی حتمی زوال پذیری کی نشاندہی کرتی ہے۔لیکن ایک حوالے سے اس فن میں بھی کچھ نہ کچھ ہے جو وہ ہمیں بتاتا ہے۔وہ ہمیں بتاتا ہے کہ سرمایہ داری کے تحت کلچر اب مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک سنجیدہ پیغام ہے۔لہٰذا سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے بورژوا طبقے کی طرح پرولتاریہ پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس تمام گندگی اور غلاظت کو صاف کرکے ایک نئے سماجی نظام کیلئے راستہ ہموار کرے۔
میں یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ محض ایک معاشی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دار طبقہ ان بے پناہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے جن کے ذریعے صنعت، زراعت اور ٹیکنالوجی کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اگر محنت کش طبقہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی بنیاد پر انسانی ترقی کیلئے بے پناہ امکانات روشن ہو جائیں گے۔
ہم اسی چیز کے لئے لڑ رہے ہیں۔ہم محض پرولتاریہ کی معاشی آزادی کے لئے ہی نہیں لڑ رہے بلکہ ہم نسل انسانی کی روح کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے سماج کے لئے لڑ رہے ہیں جس میں ہر کسی کی صلاحیتیں پوری طرح پھل پھول سکیں۔ سرمایہ داری کی ذلت آمیز غلامی سے نجات حاصل کرکے ہم بالآخر حقیقی انسانی رتبے کو پا سکیں اور پھر ستارے ہماری پہنچ سے زیادہ دور نہیں ہوں گے۔
ایک سوشلسٹ سماج میں لوگ موجودہ بدہیت،غلیظ اور گنجان آباد عفریت نما شہروں کی جگہ نئے اور خوبصورت شہر آباد کریں گے۔ لوگ خوبصورت مکانوں میں رہنے کا حق رکھتے ہیں اور یہ حق انہیں ضرور ملنا چاہیے۔ وہ زندگی گزارنے کے لئے حقیقی معنوں میں انسانی حالات تخلیق کریں گے۔ گھر، کام کرنے کی جگہ اور گلی کوچے تک خوبصورت ہو جائیں گے ۔فن تعمیر دیگر فنون کا غریب رشتہ دار نہیں رہے گا بلکہ اس پر گرما گرم مباحثے ہونگے۔ اسے دوبارہ وہ مرکزی حیثیت اور وقار حاصل ہو جائے گا جو اسے قدیم ایتھنز میں ملا تھا۔
آرٹ، کلچر اور سائنس کو بے نظیر فروغ حاصل ہوگا اور اعلیٰ ترین اور اہم ترین فن یعنی بذاتِ خود زندگی گزارنے کا فن بھی بے مثال ترقی کرے گا۔ زندگی کو خوبصورت بنانے سے بڑا نصب العین اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمیں صرف ایک ہی زندگی ملتی ہے۔ جدلیاتی مادیت کو ماننے والوں کی حیثیت سے ہم موت کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں کی زندگیاں خالی اور بے معنی نہ رہیں۔ بلکہ ہر کوئی بھرپور زندگی گزار سکے اور جب اس کو موت آئے تو وہ اس دنیا سے بغیر کسی پشیمانی اور افسوس کے رخصت ہو سکے۔
اینگلز کے الفاظ میں یہ ’’ جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم تک انسانیت کی چھلانگ‘‘ ہوگی۔ ہم اس نصب العین کیلئے لڑ رہے ہیں۔یہی وہ نصب العین ہے جس کیلئے لڑنا ایک اعزاز ہے۔ان تصورات سے مسلح ہو کر تقویت حاصل کرتے ہوئے ہم بالآخر فتحیاب ہوں گے۔

بارسلونا جولائی 2001ء

اختتامیہ

مندرجہ بالا سطور میں ایک ایسے موضوع کا محض معمولی سا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو نہایت وسیع اور پیچیدہ ہے۔ مجھے اس موضوع پر بات کرنے کیلئے پورا دن چاہیے ہوگا اور ہمیں اس پر بحث کے لئے پورا ہفتہ درکار ہوگا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں اس موضوع سے انصاف کرنے کے لئے اس پر ایک کتاب لکھنی پڑے۔
آسٹریا کے مارکسسٹ ارنسٹ فشر نے سوال کیا تھا کہ آرٹ کا مطلب کیا ہے؟ آرٹ کیا ہے؟ اور اس نے جواب میں کہا کہ بھرپور زندگی کیلئے انسانیت کی جستجو کا نام آرٹ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ طبقاتی سماج میں نہ عورتیں مکمل عورتیں ہیں اور نہ مرد مکمل مرد۔ بہترین صورت میں ہم محض نیم انسان کے درجے تک پہنچتے ہیں۔اگرچہ لوگوں کو اس بات کا مکمل ادراک نہیں ہوتا ۔ اکثر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں ہے کہ کیوں لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں کسی چیز کی کمی ہے۔
لوگوں کی بہت بڑی اکثریت کیلئے سوال یہ نہیں کہ ’’آیا موت کے بعد بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ ’’آیا موت سے پہلے بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو لوگوں کیلئے باعث اذیت ہے۔ جب لوگ اپنی زندگی پر سوچنا ترک کردیتے ہیں تو اپنے آپ سے پوچھتے ہیں:’’کیا یہی سب کچھ ہے؟ کیا زندگی میں بس یہی سب کچھ ہے؟‘‘ وہ موت کے بعد کی زندگی کی توقع اس لئے رکھتے ہیں کہ انہوں نے حقیقت میں زندگی جی ہی نہیں ہوتی۔ اور یہیں سے آرٹ کا عمل دخل شروع ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کو خواب دیتا ہے،انہیں ایک وسیع افق فراہم کرتا ہے۔ وہ خواب دیکھتے ہیں کہ معاملات بہتر ہو سکتے ہیں،زندگی بہتر انداز میں گزاری جا سکتی ہے۔ جن مردوں اور عورتوں کی زندگیاں پیار سے خالی ہیں وہ سینما گھروں میں جا کر احمقانہ قسم کے معاشقوں پر بنائی گئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ حقیقی انسانی پیار، احساسات اورجذبات کے تمنائی ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ میں کشش اس لئے محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں بے رنگ ہوتی ہیں۔ انہیں مذہب میں بھی دلچسپی اسی لئے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک روح سے عاری دنیا میں رہتے ہیں۔ میں عوام کی بات کر رہا ہوں، دانشوروں کی نہیں۔ بہت سے لوگ سینما گھروں میں جاکر فلمیں دیکھتے ہیں، بہت سے لوگ ٹی وی پر وہ بے ہودہ پروگرام دیکھتے ہیں جنہیں انگلینڈ میں ’سوپ اوپیرا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقی زندگی کا ایک انتہائی خراب متبادل ہیں مگر انہیں لاکھوں کروڑوں لوگ صرف اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی زندگی ہی نہیں ہے۔ سینما گھروں یا ٹی وی کی سکرین کے سامنے بیٹھ کر گھڑی بھر کیلئے وہ ایکشن دیکھتے ہیں، جوش و خروش دیکھتے ہیں جس سے انہیں سرمایہ داری کی دی ہوئی ذلت آمیز بوریت سے بھری زندگی میں تھوڑا سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ آرٹ کی اہمیت یہ ہے: یہ ایک خواب ہے جو چاہے کتنے ہی مبہم انداز میں سہی یہ ضرور سمجھاتا ہے کہ انسانیت ایک زندگی، حقیقی زندگی کی مالک بھی ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ مرد و زن اپنے دلوں کی گہرائیوں میں ایک مختلف قسم کی زندگی کی آرزو رکھتے ہیں، ایک ایسی زندگی کہ جو موجودہ زندگی سے بہتر ہو۔
لہٰذا ایک حوالے سے تمام آرٹ میں انقلابی عنصر کی موجودگی کا احتمال ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ موجود ہے وہ اس سے عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ بلاشبہ ہم آرٹ کی حدود کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آرٹ کا میدان ہماری جدوجہد کے لئے اولین ترجیح نہیں ہے۔لیکن ہمیں اس شعبے پر بات کرنی چاہیے اور مداخلت کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔اور بلاشبہ ہمیں فنکاروں میں سے بہترین کے ساتھ رابطے اور مکالمے کا اجراء کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ٓٓآرٹ جن تضادات کا اظہار کرتا ہے انہیں آرٹ کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ سماج کے تضادات ہیں اور فن میں محض ان کی عکاسی کی جاتی ہے لیکن سماج میں انہیں صرف انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی
حل کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا آرٹ میں سچائی اور آزادی کی مستقل جستجو لازماً بالآخر سماجی انقلاب اور مارکسزم کے نظریات و پروگرام کی طرف لے کر جاتی ہے۔

(ختم شد)


اندھیر نگری (دادا جان سے سنی ہوئی ایک کتھا)

$
0
0

|تحریر: صبغت وائیں|

میرے دادا جان  مجھے بچپن میں گورو نانک، بھائی مردانے اور موُلے کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک کہانی کچھ یوں تھی:

ایک دفعہ گورو نانک جی اور ان کے دونوں چیلے ایک ایسے نگر میں چلے جاتے ہیں، جس میں ہر چیز انت کی سستی تھی۔

 لوگ آوازیں لگا رہے تھے، ٹکے سیر ’’بھاجی‘‘ لے لو۔ یہ ’’کھاجا‘‘ لے لو ٹکے سیر۔

چیلے بڑے خوش ہوتے ہیں گورو جی سے کہتے ہیں کہ کیوں وہ تینوں ساری دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ سُکھ کی نگری مل گئی ہے، چلیں ہم یہیں پر جیون کے باقی دن شانتی سےبتاتے ہیں۔

لیکن گورو جی پر اس سب کا الٹا اثر ہوا ۔وہ ان سے کہنے لگے کہ موُرکھو بھاگو یہاں سے، مجھے بھی مرواؤ گے، یہ اندھیر نگری ہے۔ جہاں ہر چیز سنسار سے ہٹ کر چل رہی ہو، وہاں سے بھاگ جانا ہی اچھا ہے۔

چیلوں کو لگا کہ گورو کی بدھی نشٹ ہو گئی ہے۔ انہوں نے ٹھان لی کہ گوروکے بغیرہی چلیں گے۔یہ سوچ کر انھوں نے

گورو جی سے کہا کہ ان کی شکشا پوری ہوئی۔ ان سے تو جس سورگ کا، جس پریم نگر کا گیان گورو کی کرپا نے دیا تھا وہ سب آج سپھل ہوا۔ ہماری تو منو کامنا پوری ہوئی آپ ہمیں آگیا دے کر آگے سدھار لیں، ہم تو یہیں براجیں گے۔

گورو جی ان کی بے وفائی اور مورکھتا پر کڑھتے ہوئے ترنت وہاں سے نکل لیے۔

چیلوں کی تو موج ہو گئی۔ ٹکے سیر ہر چیز۔ گھر سے خاصا روپیہ لائے تھے۔ وہیں سارا دن بیٹھے کھاتے اور مزے کی نیند سو جاتے۔

غرض یہ دونوں یوں ہی روز حلوے مانڈے کھاتے خوب خوب موٹے دُنبے بن گئے۔

اب بھاگے میں کیا لکھا ہے، کس کو خبر؟

ہوا کیا کہ ان دنوں اندھیر نگری میں ایک چورکسی کے گھر آیا اور پکڑا گیا۔ ان کے ’’شانتی نگر‘‘ میں تو ایسا کبھی ہوا نہیں تھا۔ وہ چور بے چارہ ساتھ والے دیش سے آیا تھا۔ جہاں کال پڑا تھا اور بھوک ننگ کا راج تھا۔

لوگ چور کو پکڑ کر راجہ کے پاس لے گئے۔

راجہ بھی بس راجہ ہی تھا۔

(اب تو مجھے لگتا ہے کہ راجہ ویسے ہی چنا گیا ہو گا جیسا کہ گلیورز ٹریولز میں للی پٹیئنز وزیروں کا چناؤ کرتے تھے۔ کہ ایک رسی لگا دی اس پر چل کر دکھاؤ۔ چھلانگ لگا کر رسی پار کرو۔ سر زمین پر لگا کر پندرہ قلابازیاں لگاؤ۔ یا گیند بلا کھیل کر دکھاؤ۔ ۔ ۔ وغیرہ)

تو راجہ سے جب نیائے مانگا گیا تو ظاہر ہے راجہ کی اپنی شانتی بھنگ ہوئی۔

اس نے فوراً کہا کہ اس کو پھانسی سے لٹکا دو۔

پھانسی تیار کی جاتی ہے۔

پھندا چور کے گلے میں ڈال کر راجہ جی کی آگیا سے رسا کھینچ لیا جاتا ہے۔

لیکن چور وہیں کھڑا ہے اور رسی اوپر چلی گئی۔ سارے پنڈال میں تماشا دیکھنے والے ہنسنا شروع ہو گئے۔

بے چارے بھوکے چور کی گردن اتنی پتلی تھی کہ پھندا ہر بار اس میں سے نکل جاتا۔

اس پر راجہ طیش میں آ گیا۔ اس نے آخر اس سمسیا کا حل تلاش لیا اور حکم دیا کہ فوراً ایک ایسا بندہ ڈھونڈو جس کے گلے میں پھندا پورا آ جائے۔

اب پھندا بنانے والے سے  پھندا کافی بڑا بن چکا تھا۔ وہ کسی کی گردن میں پورا ہی نہیں آ رہا تھا۔

جس کے گلے میں ڈالتے پھندا نکل کر اوپر چلا جاتا، اور لوگ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوتے جا رہے تھے۔

وہیں تماشا دیکھنے کے لیے گورو جی کے دونوں چیلے بھی آئے ہوئے تھے۔

ریاستی جلادوں کی نظر جیسے ہی ان دنبوں پر پڑی تو ان کی آنکھوں میں چمک، چہروں پر رونق اور جان میں جان آئی۔ کہ بیٹھے بٹھائے مفت میں بیگار بھوگنی پڑ گئی تھی، لگتا ہے کہ جان چھُٹ گئی۔

ان میں سے پہلے کے گلے میں ڈال کر پھندا دیکھا تو ایسا چست آیا جیسے بنا ہی اس کے لیے تھا۔

ریاستی جلادوں نے اس کو پکڑا اور لے گئے راجہ کے پاس۔

راجہ نے کہا لگا دو اسی کو پھانسی۔

دونوں خوب چیخے چلائے، منت سماجت کی بین ڈالے روئے پیٹے، لیکن اندھیر نگری تھی، وہاں کون سنتا ہے؟

. . . نامکمل


کہانی کا بقیہ حصہ دوست اگر کہیں گے تو لکھ دوں گا۔

لیکن میں اس کہانی کی یونیورسیلٹی پر حیران ہوں۔

کہ کیا ایسی سرکاریں، ایسی ریاستیں اور ایسے دیس بھی کہیں ہوتے تھے؟

جہاں چھکڑے کو گھوڑے کے آگے جوتا جاتا تھا؟

جہاں پھندا جس کے گلے میں فٹ آتا پھانسی کا سزاوار ٹھہرتا؟

جس کو مار دیا جاتا، مجرم ثابت ہو جاتا؟

کیوں کہ یہ سرکار کے ہاتھوں مر گیا، لہٰذا یہ مجرم ہے؟

یہ پکڑ لیا گیا ہے اس لیے یہ غدار ہے؟

پرانی داستانوں میں ایسی ریاستوں کے آثار ملتے ہیں۔

جیسے کہ طلسم ہوشربا میں ایک ایسے شہر کا بیان موجود ہے، جس کو ’’شہرِ ناپُرساں‘‘ کہتے تھے۔

جس میں کوئی کچھ بھی کرے اس کو پوچھا نہیں جاتا تھا۔

اور تو اور بائبل کے عہد نامہ قدیم میں اس کا ذکر موجود ہے کہ ’’جو کاٹھ (یعنی صلیب) پر مارا گیا وہ لعنتی ٹھہرا‘‘۔ اسی لیے یہودیوں نے چاہا تھا کہ مسیح کو صلیب پر مار دیا جائے جو کہ اس کی عدم سچائی کی ’’دلیل‘‘ ہو گا۔

افسانہ: سو روپے

$
0
0

|تحریر: کرشن چندر|

میں نے سو روپے کا کام کیا تھا۔مجھے سو روپے ملنے چاہیے اس لیے میں نے سیٹھ سے بات کی۔ 
سیٹھ نے کہا:’’سولہ تاریخ کو آنا۔‘‘ 
میں سولہ تاریخ کو گیا۔ 
سیٹھ وہاں نہیں تھا۔اس کا بڈھا منیجر جس کی چند یا صاف تھی اور جس کا ایک دانت باہر نکلا ہوا تھا اور جو اپنے اسیسٹنٹ کو کسی غلطی پر ڈانٹ رہا تھا،مجھ سے بڑی شفقت سے کہنے لگا:’’تم نے سو روپے کا کام کیا ہے،تم کو برابر سو روپے ملیں گے۔مگر سیٹھ یہاں پر نہیں ہے کل آنا۔‘‘ 
میں نے پوچھا:’’اگر سیٹھ کل بھی یہاں نہیں ہوا تو ؟‘‘ 
منیجر بولا:’’تو میں انتظام کر رکھوں گا،تم فکر نہ کرو تمھارا پیسہ تم کو مل جائے گا۔ 

میں نے دفتر سے باہر نکل کر دو پیے کا پونا پتہ ، سکیلی مسالا اور ہری پتی والا پان کھایا۔ دو پیسے میں دیسی کالا کانڈی اور ٹھنڈی والا پان بھی کھا سکتا تھا اور ملٹھی ،لال مسالا والا پان بھی اور بنارسی چھوٹا پتہ ، گیلی ڈلی اور الائچی والا پان یا مو ہنی تمباکو والا ،مگرمیں نے صرف پونا پتہ سکیلی مسالا اور ہری پتی والا ہی کھایا کیو ں کہ مجھے بھوک بہت لگ رہی تھی اور میری جیب میں صرف ڈیڑ ھ دو آنے تھے اور یہ پان جو میں نے کھایا کا فی موٹا ہے اور دیر تک منہ میں رہتا ہے۔پھر میں ایک آنے کا ٹرام کا ٹکٹ لیا اور ٹرام میں بیٹھ کر میں نے زور سے سیٹھ کی بلڈنگ کی طرف تھوک دیا۔دوسرے دن پھر سیٹھ وہاں نہیں تھا۔ اس کے منیجر نے کہا:’’سیٹھ آج بھی یہاں نہیں ہیں اور پھر تمہارے حساب میں کچھ غلطی بھی ہے۔‘‘ 

مجھے غصہ آیا۔ میں حساب کر چکا تھا۔ منیجر اسے دس بار چیک کر چکا تھا پھر بھی کہیں غلطی نکل آتی ہے مگر میں کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ منیجر کا لہجہ بہت نرم تھا اور اس کا ہر فقرہ ریشم میں لپٹا ہوا تھا۔اس لیے میں نے بھی نرمی سے کہا:’’میراحساب تو بہت صاف ہے۔‘‘ 

اتنا کہہ کر میں نے اپنی خاکی پتلون کی جیب سے ایک میلا پرزہ نکالا اور منیجر کے ساتھ گیارھویں دفعہ تفصیلات چیک کرنے بیٹھ گیا:اتنے پیسے ریگ مال پھیرنے کے،اتنے پیسے روغن کے ، اتنے پیسے مزدوری کے ، ریگ مال اور روغن کی رسیدیں میرے پاس تھیں۔مزدوری پہلے سے طے ہو چکی تھی۔سیٹھ کا فرنیچر میری محنت سے جگ مگ ،جگ مگ کر رہا تھا۔ 

منیجر نے کہا:’’ہاں حساب ٹھیک ہے،اچھا کل آنا۔‘‘ 
’’ہاں کل ضرور۔ ‘‘منیجر نے چند یا کو سہلاتے ہوئے کہا۔ 
باہر آکر میں نے دو پیسے کا پان بھی نہیں کھایا ، ایک آنے کا ٹرام کا ٹکٹ بھی نہیں لیا اور فیروز شاہ مہتا روڈسے سائین تک پیدل گیا۔ 
مگر دوسرے دن میں پھر سیٹھ کے دفتر گیا۔ 
آج دفتر میں سیٹھ موجود نہیں تھا ،منیجر بھی غائب تھا۔ 

منیجر کا اسسٹنٹ چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ایک سنگل چائے اپنے سامنے رکھے کچھ سوچ رہا تھا۔اس کا چہرہ بہت زرد تھا۔ماتھے کے قریب ،سفید رخساروں کے قریب پیلا اور تھوڑی کے قریب مٹیلا سا تھا۔ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کسی نے ان کے چہرے کی ہڈیوں پر کھال کے بجائے میلے میلے، پیلے پیلے کاغذ تراش کے منڈھ دئیے ہوں۔میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ 
اسسٹنٹ نے پیا لی سے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔میں نے پوچھا :’’سیٹھ کہاں ہیں؟‘‘ وہ بولا:’’سیٹھ اپنے دوسرے دفتر گیا ہوا ہے۔‘‘ 
’’اور منیجر کہاں ہے؟‘‘ ’’منیجر سیٹھ کے تیسرے دفتر گیا ہے۔‘‘ 
’’تو مجھے یہاں چوتھی منزل پر کس لیے بلایاہے؟‘‘میں نے ذرا غصے میں تیز ہوتے ہوئے کہا۔ 
اسسٹنٹ نے چائے کا آخری گھونٹ بھی نگل لیا۔آہستہ سے بولا:’’تم یہاں بیٹھ جاؤ منیجر ابھی آتا ہو گا۔اس سے بات کر لینا۔‘‘ 

میں ایک کرسی پر ساڑھے دس بجے سے لے کر پونے دو بجے تک بیٹھا رہا۔پہلے میں نے سوچا کہ کسی شیشے کا ٹکڑا لے کر سارے روغن کو اتاردوں جو میں نے اتنی محنت سے اس فرنیچر پر چڑھایا تھا۔پھر میں نے سوچا کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اسسٹنٹ کے نقلی چہرے سے پیلے پیلے کا غذ کے ٹکڑوں کو اتار تا جاؤں حتیٰ کہ اندر کی ہڈی ننگی ہو جائے۔بھر میں نے سوچا :منیجر کو جان سے مار دینا بہتر ہو گا۔ بہت دیر تک سیٹھ کے لیے سزا سوچتا رہا۔آخر خیال آیا کہ اس کے سارے جسم پر بی نمبر کی موٹی ریگ مال پھیردوں گا تو اس کی ساری کھال ادھڑ کر ننگی ہو جائے گی۔بھر منیجر آگیا۔ 

مسکرا تے ہوئے بولا:’’تمہاراکام ہو گیا ہے، مگر چیک ملا ہے سو روپے کا اور اب پونے دو بج چکے ہیں اور دو بجے بنک بند ہوتا ہے اور بنک یہاں سے دو میل دور ہے اور کل چھٹی ہے اور پرسوں اتوار ہے۔‘‘ 
میں نے مایوسی سے کہا:’’ہاں۔‘‘ منیجر مسرت سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔میں نے بے حد رکھائی سے کہا:’چیک مجھے دے دو۔‘‘ 

پانچ منٹ اور چیک لینے میں گزر گئے کیو نکہ چیک پر میرا نام غلط لکھا ہوا تھا محمد شفیع کے بجائے محمد رفیع لکھا ہوا تھا۔’’چچ چچ‘‘منیجر نے کہا۔’’بڑی غلطی ہو گئی ، محمد شفیق لکھتے لکھتے محمد رفیع لکھا گیا مگر کو ئی حرج نہیں ،اب تم سوموار کو آ کے نیا چیک لے لینا۔‘‘میں نے کہا:’’مگر یہ بیررچیک ہے۔نام کی غلطی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔تم میرے نام کی رسید لے لو اور چیک مجھے دے دو،سوموار کو میں کہاں آؤں گا کہیں اور دھندا کروں گا۔‘‘ 

’’اچھا لے جاؤ۔‘‘ منیجر نے رکتے رکتے کہا۔چیک لے کر باہر آیا تو دو بجنے میں پونے دو منٹ تھے کسی صورت پیدل چل کے بنک نہیں پہنچ سکتا۔سو روپے کا چیک میرے ہاتھ میں تھا مگرابھی کا غذ کا پْرزہ تھا۔اسے سو روپوں میں تبدیل کرنے کے لیے بنک تک پہنچنا ضروری تھا۔دو بجے سے پہلے صرف ایک ہی صورت ہو سکتی تھی۔میں نے فیصلہ کر لیا اور چِلا کر کہا :’’ٹیکسی۔‘‘ 

پیلی چھت اور سیاہ جسم والی زوم سے میرے قریب آکر رک گئی۔میں نے اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کالبادیوی روڈ کے نا کے پر چلو اور ذرا تیز چلو۔‘‘جب کالبادیوی ناکے پر پہنچا تودو بجنے میں دو منٹ تھے۔مگر بنک کا لبادیوی روڈ پر نہیں تھا، گو چیک پر یہ لکھا تھا مگر بنک کا لبا دیوی روڑ کے ناکے پر نظر نہ آیا۔دو ایک دکاندارو ں سے پوچھا،کسی کو اتنی فرصت نہیں تھیں ،کوریا میں جنگ تیز تھی،بھاؤ بھی تیز جارہے تھے،کس کو وارنش کرنے والے کے سو روپوں کی فکر تھی؟ 

ہار کر میں نے ایک پنجابی سکھ ہار مونیم بنانے والے کی دکان میں گھس گیا۔’آئیے آ ئیے کیا چاہیے آپ کو ؟سردار نے اپنی اس آری کو چھوڑ کر جس سے وہ لکڑی کا ٹ رہا تھا مجھ سے مسکرا کر کہا۔ 
میں نے کہا:’’سردار مجھے باجا نہیں چاہیے ،مرکنٹائل بنک کا پتا چاہیے چیک پر تو لکھا ہے کالبادیوی روڈ اور یہاں کہیں نہیں ملتا۔‘‘ سردار جی نے مسکرا کر کہا:’’بادشاہو! وہ بنک ساتھ والی گلی میں ہے، ادھر سے گھوم کرسٹہ بازار سے اس طرف پرانے چاندی والے مندر کے پاس۔‘‘ 

میں نے سردا رجی کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا بھا گا واپس ٹیکسی کے پاس ،جب بنک میں پہنچا تو دو بج کر چار منٹ تھے۔اصولاً میرا چیک کلرک کو نہیں لینا چاہیے تھا مگر معلوم ہو تا ہے کہ کلرک چیک پڑھنے کے علاوہ چہرہ پڑھنا بھی جانتا تھا۔ اس نے خاموشی سے چیک مجھ سے لے لیا۔پھر الٹا کر کے دیکھا ،مجھ سے کہنے لگا:’’اس پر دستخط کرو۔‘‘ 

میرا نا م شفیع تھا لیکن میں نے محمد رفیع لکھا۔یہ محمد رفیع کون تھا؟یہاں کہاں سے آیا تھا؟ کب پیدا ہوا؟اس کی صورت کیسی تھی؟اسکے ماں باپ کون تھے؟کون جانتا ہے؟ کچھ زندگیاں ایسی ہوتی ہیں جو چیک پر لکھی جاتی ہیں اور چیک پر ہی کاٹ دی جاتی ہیں۔میں ٹیکسی والے کا چکتا کرنے لگا۔ دورروپے دو آنے ٹیکسی چھوٹی تھی اس لیے میٹر بڑھا نہیں۔ٹیکسی بڑی ہوتی تو پانچ سات روپے کھل جاتے۔میں نے خوشی سے اطمینان کا سانس لیا۔اتنے میں کسی نے آکے میرے شانے پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا:’’کہو میرے یار،بڑ ے ٹیکسی میں گھوم رہے ہو آج۔‘‘ میں نے گھوم کر دیکھا:میرا دوست اسحاق تھا۔اسحاق بڑے کھلے دل کا آدمی تھا۔ وہ خود توعبدالرحمٰن سٹریٹ کے اندر ایک خوجے کے مکان کے ایک تنگ سے کمرے میں رہتا ہے اور وہی دھندا کرتا ہے جو میں کرتا ہوں یعنی وارنش کا اور پرانے فرنیچر کو پھر سے نیا کر دینے کا لیکن اس کی محبوبہ محمد علی روڈ اور کرافورڈمارکیٹ کے ناکے پر ایک اچھے ہوٹل میں رہتی ہے۔میں نے دیکھا ہے بڑی خوبصورت عورت ہے،بڑے بڑے سیٹھوں کے پاس جاتی ہے۔ یہ اسحاق اس سے پہلے اس کے پاس ڈرائیور تھا۔اسحاق کویہ کام پسند نہیں آیا اور وہ اس سے الگ ہو گیا۔ 

وہ عورت اس کو بہت پسند کرتی ہے،یہ بھی اس کو چاہتا ہے مگر وہ اس کو اپنے دھرے پر لانا چاہتی ہے اور یہ اس کو اپنے طریقے پر رکھنا چاہتا ہے۔دونوں میں ہمیشہ لڑائی ہوتی ہے۔بھر یہ اس سے دس بارہ روز نہیں ملتا، پھر وہ اس سے ملنے آتی ہے۔ایسے ہی یہ چکر چلتا رہتا ہے کبھی کبھی اسحاق جب کوئی موٹی رقم کما لیتا ہے تو اسے جا کر دے آتا ہے اور اسے ایک لیکچر بھی جھاڑ آتا ہے۔ مگر جس عورت کے پاس اچھا ہوٹل ہو گا، اچھی جوانی،صحت اور خوبصورتی ہو گی اور سونے چاندی والے سیٹھ ہوں گے۔وہ وارنش کرنے والے اسحاق کی بات کیوں سننے لگی، سوچنے کی بات ہے یارو! 
میں نے اسحاق سے پوچھا :’’مجھے بھوک لگی ہے، کچھ کھاؤ گے؟‘‘ 
وہ بولا:ہاں بھوکا تو میں بھی ہوں ،چلو فیروز ے کبابیے کی دکان پر۔‘‘فیروز ے کبابیے کی د کان سے فارغ ہو کر اسحاق نے مجھ سے دس روپے ادھار لیے اور اپنے رستے پر چلا گیا۔مجھے اسحاق بہت پسند ہے۔ اس کے پاس ہوں تو نا نہیں کرے گا ،سب کو کھلائے پلائے گااور جب پیسے نہیں ہوں گے۔ تو میرے سوا کسی سے قرض نہیں مانگے گا۔ 

بھوکا مر جائے گا مگر کسی سے ادھار نہیں لے گا۔ایسا دوست جو دنیا میں میرے سوا کسی سے ادھار نہ لے کہاں ملتا ہے؟مجھے اسحاق کی دوستی پر فخر ہے۔ میں جب بھی اسحاق سے ملتا ہوں ،ایک عجیب سی خوشی لاپروائی، بچوں کی سی مسرت محسوس کرتا ہوں۔مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دل میں کوئی غم نہیں ہے،کوئی تکلیف نہیں۔جیسے ساری دنیا کھلونوں سے بھری پڑی ہے اور اس کے سارے بازار میرے لیے سجے پڑے ہیں۔بعض آدمیوں میں کچھ ایسی ہی طاقت ہوتی ہے۔بعض آدمیوں میں کچھ ایسی ہی بات ہوتی ہے۔اس وقت اسحاق سے مل کر میراجی ہلکاپھلکا ہو گیا۔ میں نے کرافورڈمارکیٹ سے دوسیب خرید کر کھائے، ایک بھکاری کو دو آنے دئیے وہاں سے چلتا بوری بندر آگیا۔لیکن جیب میں روپے تھے اور ابھی گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔اس لیے بوری بندر سے ہارن بی روڑپر ہو گیا۔ 

ہارن بی کی دکانیں مجھے بہت پسند ہیں، خاص طور پر ان کے نمائشی دریچے میں آئینے لگے ہوئے ہیں اور نی آن کی روشنیاں اور قد آدم کانچ کی بڑی بڑی شفاف سلوں کے پیچھے کیسی کیسی خوبصورت چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔خوبصورت ٹائیاں ،موزے،جراب،پتلون کے کپڑ ے مفلر ،جوتے ،ہر ہفتے ان دریچوں کے اندر خوبصورت چیزیں بدل جاتی ہیں اور پرانے ڈیزائنوں کی بجائے نئے ڈیزائن آ جاتے ہیں۔شام کو گھر جانے سے پہلے میں اکثر ہارن بی روڈ کے نمائشی دریچے دیکھا کرتا ہوں۔جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی غرض نہیں میں اکثر اپنا کام ختم کر کے بوری بندر جانے کے لیے ہارون بی روڈ سے گزرتا ہوں اور ایک دریچے سے ناک رگڑ کر اندر کی خوبصورت چیزیں دیکھا کرتا ہوں۔اس میں مجھے اتنا لطف حاصل ہوتا ہے جتنا بچپن میں نئے کھلونے دیکھ کر حاصل ہوتا تھا۔میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نئے نئے کر کرے نوٹو ں کو تھپتھپایا اور بڑی شان سے ایوان اینڈ فریزر کے نمائچی دریچوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔آہ!کس قدر خوبصورت قمیض تھی۔بادامی رنگ کی صاف شفاف قمیض پر نیلیاور سْرخ دھاریاں میرا تو جی مچل گیا،میں نے اپنی قمیض کے پھٹے ہوئے کالر کو سہلایا۔اس نیلی اور سْرخ رنگ کی دھاری دار قمیض کو پہن کر میں کیسا دکھائی دوں گا۔میں نے تخیل میں اپنے آپ کو قمیض پہن کر قد آدم آئینے کے سامنے دیکھا، واہ!کیا ٹھاٹ تھے اور قمیض کے دام تھے صرف تیس روپے اس سے تگنے روپے اس وقت میری جیب میں تھے،میں قمیض خرید سکتا تھا مگر کچھ اور بہتر دیکھنے کی خاطر آگے چلا گیا۔ 

اگلے دریچے میں خوبصورت صابن تھے، جھاگ والے، اسپنچ اور تولیے جنھیں دیکھ کر خود بخود نہانے کی خواہش پیدا ہوتی تھی۔یہ سب میں خرید سکتا تھا۔ اس سے اگلے دریچے میں مردوں کے لیے شب خوانی کے گاؤن تھے :بھڑکیلے ،ریشمی ،منقش گاؤن جنھیں پہن کر وارنش والا بھی مصر کا پاشا معلوم ہو۔سترروپے کا گاؤن اور اس سے زیادہ رقم میرے پاس تھی۔میں نے اس گاؤن کو اپنے تخیل میں پہنا اور ایک ایرانی غالیچے پر اڑتا ہوا دور جلا گیا۔ہوا صاف تھی ،میرے نیچے خوبصورت باغوں والی زمین گھوم رہی تھی اور ہری ہری دوآب میں ایک چھریری نازک اندام ندی ایک پہاڑی حسینہ کی طرح دھوپ سینک رہی تھی۔میں نے اس غالیچے کو اس ندی کے کنارے اترنے کاحکم کیا۔غالیچہ ندی کے کنارے اتر آیا اور خود بخود کہیں سے ایک صراحی آگئی اور ایک مرمریں ہاتھ اور دو آنکھیں اور ایک حسین چہرہ۔پھر مجھے کسی نے ٹہو کاکیا کر خت لہجے میں بولا:’’آگے بڑھو،اب کسی اور کو بھی دیکھنے دو،آدھے گھنٹے سے یہیں کھڑا ہے نہ لینا نہ دینا۔‘‘میں نے مسکراکر ایوان اینڈ فریزر کے وردی پوش غلام کی طرف دیکھا جو مجھے ڈانٹ رہا تھا اور آگے چل دیا۔بے چارے کو معلوم تھا کہ میرے پاس ایک اڑنے والا ایرانی غالیچہ ہے اور جیب میں ستر روپے سے بھی زیادہ کی رقم ہے۔میں اس وقت اندر جا کے اس گاؤن کو خرید سکتا تھا،مگر میرا جی نہیں مانا۔ہارون بی روڈ پر اس سے بہتر بھی کوئی چیز ہوگی۔ آگے چل کر دیکھا جائے ،اس وردی پوش غلام کو تو کسی وقت بھی شکست دی جا سکتی ہے۔آگے چلتا چلتا بہت سی دکانیں دیکھتا بھالتا میں جگدمبالال پائل کی دکان پر پہنچ گیا۔یہاں نمائشی دریشے میں کیمرے پڑے تھے جنھیں میں خرید سکتا تھا۔کیمرے خرید کے میں ان فرنیچروں کی تصویرلے سکتا تھا جو پرانے تھے۔میں نے سوچا یہ کیمرہ لے کر میں اسحاق کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا: ’’چل،آج تیری اور تیری محبوبہ کی اکٹھی تصویرلیں گے۔‘‘

میں نے اپنا ایرانی غالیچہ منگوایا اور کیمرہ ہاتھ میں لے کر سارے جہان کے خوبصورت مناظر کی تصویریں اتارنے لگا۔کیمرے کے ساتھ جادوبین پڑی تھی جس میں دیکھنے سے تصویریں بالکل اپنی گہرائی کے ساتھ نظر آتی ہیں یعنی جیسے آدمی بالکل آپ کے سامنے چل پھر رہے ہوں اور مکان آپ کے سامنے ہو بہو جیسے آپ کا۔تصویر اپنی لمبائی چوڑائی اور موٹائی کے ساتھ اتنی اچھی دکھائی دیتی کہ سینما میں بھی اتنی اچھی معلوم نہیں ہوتی۔بچپن میں ایک بڑھیا ایک بڑی سی جادو بین ہمارے محلے میں لایا کرتی تھی اور ہم لوگ ایک پیسہ دے کر تماشا دیکھتے تھے۔اس جادو بین کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے کا نپنے لگا اور دکان کے اندرداخل ہو گیا۔کونٹر پر میں نے ایک نوجوان سے پوچھا:’’یہ جادوبین کتنے کی ہے؟‘‘’’ساڑھے پینتیس روپے‘‘ 

نوجوان بڑی خوبصورت قمیض پہنے تھا۔ اس کے بال گھنگھریا لے اور پیچھے کو گھومے ہوئے ٹی آئرن کو روشنی میں نئے فرنیچر کے وارنش کی طرح چمکتے تھے۔اس کے ہونٹوں پر بھی جوانی کی وارنش تھی۔اس کے لبوں پر ایک مغرور مسکراہٹ تھی جو صرف چیک لکھتے وقت پیدا ہوتی تھی۔اس نے میری طرف نگاہ اٹھا کر ایک خوبصورت لڑکی کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہوئی تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا اور ایک میلے میلے چہرے والانا آسودہ گجراتی جو غالباًاسکا اسسٹنٹ تھا ،میری طرف آگیا۔میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کا وارنش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے اور اس نے مسکرانے کی کو شش بھی نہیں کی۔ 

میں نے کہا:’’جادوبین مجھے دکھاؤ۔‘‘ اس نے جادوبین میں ایک مدورفیتہ رکھ کر میرے ہاتھ تھما دیا اور مجھ سے کہا:’’اسے گھماتے جاؤ،یوں سوئچ دباکر ،نئی نئی تصویریں تمہارے سامنے آتی جائیں گی۔‘‘میں نے بٹن آن کیا:’’ٹارزن ہاتھی پر سوار سامنے سے چلا آرہا تھا۔میں نے بٹن دبادیا۔ ٹارزن آبشار میں چھلانگ لگا رہا تھا۔نیچے مگر مچھ کتنے خوف ناک معلوم ہو رہے تھے، میں نے بٹن دبا دیا۔پھولوں کے گجرے، پھولوں کے ہار اور پھولوں کے لہنگے پہنے ہوئے ہوائی جزیرے کی لڑکیاں ناچ رہی تھیں۔میں نے بٹن دبا دیا۔ 
ساحل کی ریت پر شراب اور پھل او ر بسکٹ اور کھانے کی چیزیں ایک شفاف طشتری میں پڑی تھیں اور ایک عورت ریت پر آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔اس کا منہ میرے اس قدر قریب تھ کہ میں نے جلدی سے بٹن دبا دیا۔ ایرانی غالیچہ زمین پر آگیا۔ 

میں نے گجراتی خارش زدہ کلرک سے کہا:’’یہ جادو بین تو بہت اچھی ہے ،میرے بچپن کی جادوبین سے ہزار درجے بہتر ہے،کتنے میں دو گے؟‘‘ وہ مسکرائے بغیر بولا:’’ساڑے پینتیس روپے کی جادوبین آتی ہے،مدورنگین تصویروں والے فتیلے ایک درجن اس کے ساتھ لینا پڑیں گے۔دس روپے کے یہ ہوں گے،سیلزٹیکس اس کے علاوہ پچاس کے اوپر رقم جائے گی۔میں جب ہاتھ ڈال کر دس دس کے نئے کر کرے نوٹوں کو تھپتھپایا۔آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ 

لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ اس سے پہلے میرے دل میں جادوبین کے سوا اور کوئی تصویر نہ تھی۔لیکن نوٹوں کو ہاتھ لگانے سے ایک دم مجھے دھچکا سا لگا اور بہت سی تصویریں بٹن دبائے بغیر میرے سامنے گھوم گئیں۔ایک بچہ پھٹی ہوئی قمیض پہنے گلی کے فرش پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے۔میں نے پہچانا میرا بچہ تھا۔ایک عورت کی شلوار کا پائینچہ دوسرے پائینچے سے اونچا ہے۔اس کی اوڑھنی سے اس کے سر کے الجھے ہوئے بال باہر نکلتے ہوئے نظر آرہے تھے۔میں سمجھ گیا کہ ایک آدمی دروازے پر کھڑا ہے۔ 

اس کی صورت ہر لمحہ بدلتی جاتی ہے۔اس کا غصہ ہر لمحہ بڑھتا جاتا ہے۔کبھی یہ مالک مکان کا منیجر بن جاتا ہے۔کبھی دودھ والے سیٹھ کا نوکر۔ کبھی بجلی والی کمپنی کا عہدیدار۔ کبھی پانی والے دفتر کا۔میں نے بٹن دبا دیا:اب میرے سامنے گھر کے فرش پر ایک خالی طشتری پڑی تھی جس پر ایک گلاس اوندھا پڑا ہوا ہے۔نوٹ میری جیب سے باہر نکلے،پھر وہیں ہاتھ رہ گئے۔خوبصورت کلرک ،خوبصورت لڑکی کو کیمرہ بیچ کر کونٹر پر واپس آگیا۔میں جلدی سے گھوم کر دکان سے واپس جانے لگا۔باہر جاتے جاتے میں جانتا تھا کہ وہ کلرک اپنی بہترین وارنش شدہ مسکراہٹ سے میرے پھٹے ہوئے کالر دیکھ رہا ہے،میری خاکی زین کی پتلون دیکھ رہا ہے،جس کی پیٹھ میں دوجگہ ٹکڑے سلے ہوئے ہیں۔مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ پر ہنس رہا ہے۔میں نے اچھی طرح دانت پیس لیے،اچھی طرح جیبوں میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور نمائشی دریچوں سے نگاہ اٹھا کر سیدھابوری بندر کی طرف چلنے لگا۔چلتے چلتے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے مجھ سے شدید دھوکا کیا ہے،کسی نے مجھے سو روپے دے کر دو سو چھین لیے ہیں۔اس کے ساتھ ہی میرا ایرانی غالیچہ اور جادوبین بھی چھین لی ہے۔کسی نے زور سے میرے منہ پر چپت ماری ہے۔کسی نے میرے ہر نوٹ پر لکھ دیا ہے۔’’تمہارے لیے نہیں ‘‘میرے قدم بھاری ہوتے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ میری محنت کا ہر نوٹ اداسی کی ایک لمبی زنجیر ہے،جسے میں خود اپنے ہاتھوں سے کھینچ رہا ہوں۔بوری بندر پہنچ کر یکا یک میں نے فیصلہ کیا کہ میں آج گاڑی سے اپنے گھر واپس نہیں جاسکتا۔ آج پیدل ہی بوری بندر سے سائین جاؤں گا۔ بہت رات گئے میں تھکا ماندہ اپنے گھر لوٹا۔ میری بیوی متفکر تھی اور میر ا انتظار کر رہی تھی لیکن جب اس نے نوٹ دیکھے تو خوش ہوگئی۔اس لیے وہ میری اداسی کا مطلب نہ سمجھ سکی۔
بولی:’’لیکن یہ کیا بات ہے، تم آج خوش ہونے کی بجائے اداس ہو؟‘‘ میں نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا :’’جان من !آج مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ دنیا بوڑھی ہو چکی ہے اور مجھے ایسی دنیا چاہیے جو بچوں کی طرح مسکرا سکے۔‘‘
وہ بولی:’’میں نہیں سمجھی تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘ 
میں نے کہا :’’جان من !میں کہہ رہا ہوں کہ اب پرانے فرنیچر پر وارنش کرنے سے کا م نہیں چلے گا۔اب نیا فرنیچر لانا ہوگا‘‘۔

فیضؔ کی شاعری کے ایک اکیڈمک جائزے کا جائزہ

$
0
0

|تحریر: صبغت وائیں|

چند دن پہلے ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ اس عنوان کے تحت روزنامہ ”دنیا“ اخبار میں 21 نومبر 2019 ء کو چھپا تھا:

”فیض احمد فیض کی شاعری کا ایک اکیڈمک جائزہ“

عنوان فیشن ایبل شکل ہے، یہ جائزہ فلاں نقطہ نظر سے کیا ہے، گنجائش بچ جاتی ہے کہ اصل میں تو ہم کچھ اور بھی کہہ سکتے تھے لیکن یہ صرف اس نقطہ نظر سے ہے۔

جائزہ روایتی اخلاص کے اظہار اور اعلیٰ صحافتی اخلاق اور اقدار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شروع ہوتا ہے۔

”فیضؔ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں۔“

لیکن ”یہ میرے بڑے اچھے دوست ہیں، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں“ ایک عام جملہ ہے، جو کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے منہ سے ہر ٹی وی شو پر سنا جاتا ہے، اس کے بعد مخاطب کی کلاس لینا شروع کی جاتی ہے۔ یہ صحافتی حربہ عام دیکھا جا سکتا ہے۔

ویسے بندہ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ اہمیت سے انکار کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

آگے اصل مدعے پر بات شروع ہوتی ہے:

”کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ فیضؔ کے شعر میں ارتفاع تو ہے، گہرائی نہیں ہے اور اس کے کسی شعر کے ایک سے زیادہ معانی بھی نہیں نکلتے۔ اس پر مجھے حسن نثار کا فون آیا کہ یہ بات تو فیضؔ کی شاعری پر آج تک کسی نے نہیں کہی، میرا جواب تھا کہ آخر کسی کو تو یہ بات کہنی ہی تھی۔“

ارتفاع کا ہونا، لیکن گہرائی کا نہ ہونا، یا اس سے الٹ کر لیں، کہ گہرائی تو ہے لیکن ارتفاع نہیں ہے۔ پہلی نظر میں یہ بات بڑی شاندار لگتی ہے، لیکن تھوڑی دیر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ان سولہ سترہ جملوں میں سے ہے، جو کہ ہمارے بیشتر نقادوں نے یاد کر رکھے ہیں، جو کہیں بھی، کسی پر بھی، کسی کو بھی اور کسی جگہ پر بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بول دیے جاتے ہیں۔ یہ ایسی عمومیت کے حامل اور مبہم فقرے ہیں، کہ اس سے مخاطب صرف سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس بات کو درست نہ مانا تو میری علمیت مشکوک سمجھ لی جائے گی، لہٰذا دُور اندیشی(حقیقت میں بزدلی اور کاہلی) کا تقاضا یہی ہے، کہ خاموش ہی رہا جائے۔

باقی گہرائی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی عام سی اور فضول سی بات کو بھاری سی آوازمیں بالکل آہستہ آہستہ سے بولا جائے تو بہت گہری لگتی ہے:

ہم سب فانی ہیں،
کون جانتا ہے کیا ہونے والا ہے؟ وغیرہ

یا پھر متضاد باتوں کو رک رک کر بھاری آواز کر کے بولا جائے تو وہ گہری ہو جاتی ہیں کسی نے جارج آرول کے ”انیس سو چوراسی“ سے مثالیں لکھی ہیں:
جنگ امن ہے
آزادی غلامی ہے
لاعلمی طاقت ہے وغیرہ

آج کل گہرائی پیدا کرنا اور اس کی باتیں کرنا ایک آرٹ بن چکا ہے، جو کہ شاعر اور افسانہ نگار مشاعروں اور اجلاسوں میں اپنی آوازوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔

حسن نثار صاحب نے یہ بات کہ، ”پہلے یہ بات کسی نے نہیں کہی“ لگتا ہے مذاق میں کی ہے۔ کیوں کہ فیض کے شعر کے ”ایک سے زیادہ“ مطالب ہوں یا نہ ہوں لیکن حسن نثار کی اس بات کے کہ یہ ”پہلے کسی نے نہیں کہی“ کے دو سے زیادہ مطالب ضرور تھے۔

پہلا یہ کہ یہ بات ہی غلط ہے، اگر اس میں ذرا سی بھی سچائی یا دانائی کی بات ہوتی تو کوئی نہ کوئی تو ضرور ہی کر دیتا۔

دوسرا یہ کہ سالہا سال سے ہر حلقے اور ہر انجمن کے اجلاس میں اس بات کی دوہرائی اور رٹائی کی اور کروائی جاتی ہے، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ، یہاں تک کہ ”ترقی پسندی“کے نام پر بھی یہ بات دوہراتے نظر آتے ہیں، کہ”فیض بھی کوئی شاعر تھا؟“ پوچھیں کیوں، تو جواب ملتا ہے، ”اس کی شاعری، اس کی باتیں تو سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ اور شاعری تو وہ ہوتی ہے، جو سمجھ میں نہ آئے“۔ تو جب اس بات کو سالہا سال سے تنقیدیوں کی محفلوں میں فیشن کی طرح کیا جاتا ہو تو۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ حسن نثار نے یہ کہا ہو کہ یہ کوئی نئی بات تھوڑا ہی ہے؟

تیسرا وہ مطلب ہے، جو انہوں نے خود لے لیا ہے، ویسے حسن نثار صاحب بھی اتنے لاعلم نہیں ہیں، کہ انہوں نے وہ بات نہ سنی ہو جو ہر ادبی حلقے میں گھڑی گھڑائی اتاری گئی ہے۔

”میرا مطلب یہ تھا کہ شاعری کے جدید نظریات کے مطابق، شعر کو کثیر المعانی ہونا چاہیے اور اس سے ابہام کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے، لیکن فیضؔ کی بالخصوص غزل ہمیں ان دونوں آلائشوں سے پاک نظر آتی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا ہے کہ فیضؔ کا طرزِ بیان وہی ہے، جو تقسیم کے وقت تھا اور اس عرصے میں زبان نے جو نئی کروٹیں لی ہیں یا جس حد تک اپنا فیشن تبدیل کیا ہے، بالخصوص جدید طرزِ احساس کو بھی فیضؔ نے کوئی گھاس نہیں ڈالی، پھر فیضؔ کی غزل میں کوئی ڈائیورشن یا ڈائیورسٹی نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی غزل لکھتے رہے ہیں۔“

یہاں کالم نگار صاحب کا یہ فرمانا کہ ”شاعری کے جدید نظریات کے مطابق“ شعر اس طرح کا ہونا ”چاہیے“ انہی کے بتائے گئے جدید نظریے کے مطابق پرکھیں تو حیران کُن حد تک خود تضادی کا شکار بیان ہے۔

اس بات کا غیر مدرسانہ جائزہ لیا جائے تو بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں، لیکن ہم چند ایک پر ہی اکتفا کریں گے۔

پہلی بات یہ کہ کسی شعر کو اس نظر سے دیکھا جانا چاہیے کہ یہ شعر ”شاعری کے جدید نظریے کے تابع“ہے یا نہیں؟ لیکن اس کا مطلب یہ ہوا گویا کہ نظریے پہلے سے گھڑے جاتے ہیں اور شاعری ان نظریوں اور اصولوں پر چل کر کی جاتی ہے۔ اس طرح نئے شاعرانہ تجربات نظریات کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، اور جدید نظریات تو شاید کہیں سے ٹپک پڑیں لیکن نئی شاعری کی پیدائش کے امکانات تو جڑوں سے ختم کر دیے جائیں گے۔

دوسری بات یہ کہ”جدید نظریے“ کے مطابق تو ہر لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں، اور پھر معنیوں کے آگے کئی معنی اور پھر معنی کے معنی کے آگے معنی ہوتے ہیں، آپ کو فیض کی شاعری میں یہ والی آلائش نظر نہیں آئی؟ ہم تو اس جدید (مابعد الجدیدیت) نظریے کو سمجھتے ہی عقل دشمن ہیں، لیکن حیرت ہے کہ ”جدید“ نظریوں کے پرستار، ان کی ہر بات پر یہ دیکھے بغیر کہ درآمد شدہ بات درست ہے یا غلط اس پر آمین کہہ دینے والے، یہ بات بھی نہ جانتے ہوں کہ”جدید“ نظریے کا اس بارے حکم کیا ہے؟ پھر وہ لفظوں کے کئی معنی اور معنیوں کے معنی والا پوسٹ ماڈرنسٹ حکم کیا ہوا؟

تیسرے یہ کہ ہم ”ابہام ہونا چاہیے“ کی شرط کو مانتے ہیں، یا نہیں، الگ بحث ہے، لیکن یہ بات کہ جدید نظریے کے مطابق ابہام ہوتا ہے یا نہیں، مابعدجدیدیت کے رجحان پر نظر ڈال کر دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں ابہام ساز ہر بات میں سے ابہام برآمد کرتے نظر آ جاتے ہیں۔

چوتھے یہ کہ شعر کے کثیر المعانی ہونے اور اس میں ابہام کی شرط قائم کر دینے پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کم از کم یہ نظریہ نیا تو نہیں ہے۔ بہت عرصہ پہلے غلام عباس نے ایک ناولٹ لکھا تھا ”جزیرہ سخنوراں“ جس کی ایک مثال اس بات پر خاطر خواہ روشنی ڈال دے گی کہ قدیم وقتوں سے شاعری کے نکتہ سنج اور نکتہ چیں ہی نہیں بلکہ نکتہ بیں، نکتہ داں اور نکتہ رس بھی چلے آ رہے ہیں۔ غالبؔ کے ایک شعر کے اپنے والے ”جدید“نظریے کے تابع ہونے پر ایک ثبوت ملاحظہ فرمایئے:

”محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اس شعر کی شرح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مرزا غالب کو صنائع بدائع میں کس درجہ کمال حاصل تھا۔
”نوا، پردہ، ساز علمِ موسیقی سے متعلق اور باہم مناسبت رکھتے ہیں، اس لیے یہ صنعت مراۃالنظیر ہے۔ پردہ کے معنی اوٹ کے بھی ہیں، اس لیے اس شعر میں صنعت توریہ مرشح بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان معنوں میں یہ لفظ حجاب، راز اور محرم کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے، لہٰذا یہ بھی صنعت مراۃ النظیر ہے۔
نوا، پردہ اور ساز کی رعایت سے یاں کا لفظ ”تان“کا تجنیس تصحیف ہو کر زمزمہ پردازی کر رہا ہے۔ بقاعدہ تجنیس مرفو حجاب کا ”حج“ اور محرم کا ”حرم“ خانہ خدا کی زیارت کرا رہے ہیں۔ جوباقاعدہ تجنیس محرف ”جو“ بن کر جس کی بیئر بنتی ہے، حرم کے ”رم“کے ساتھ کیف دوبالا کر رہا ہے۔ ادھر نواہائے کا ”نو“ اور پردہ کا ”دہ“ یعنی دس گویا صنعت سیاقتہ الاعداد کی تاش میں نہلے پہ دہلا ہے۔
ایک لطف اس شعر میں اور ہے، وہ یہ کہ چونکہ شعر تصوف کا رنگ لئے ہوئے ہے، اس لئے تو ہی نواہائے میں نوا ”نو“ باقاعدہ تجنیس تصحیف ”تو“ ہو کر وحدت الوجود کی یکتائی کا دم بھر رہا ہے اور تُو ہی تُو کا نغمہ الاپ رہا ہے۔“
(جزیرۂ سخنوراں، از غلام عباس)

اور اسی ناولٹ پر خود فیضؔ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھیے کیا کہا ہے:

”ہمارے روایتی شعرا کی زندگی سے بے تعلقی، مختلف صنائع بدائع سے ان کا شغف، ان کی زندگی کا بے رنگ کھوکھلاپن مصنف نے اس تفصیل سے اُجاگر کیا ہے کہ اُن کے متخیلہ کی داد دینی پڑتی ہے“۔

اس کو دیکھ کر کون یہ نہیں جان سکتا کہ ابہام پیدا کرنا تو چٹکیوں کا کام ہے، نقاد ٹوپی میں سے خرگوش برآمد کرنے والا جادوگر ہے، جس شعر میں جتنے کا کہیں ابہام ڈال دیں، یا اس میں سے برآمد کر کے دکھا دیں۔

پانچویں یہ کہ زبان کے”نئی کروٹ لینے سے“ کیا زبان اعلیٰ درجے کی ہو جاتی ہے؟ یا تنزلی کا شکار ہوا کرتی ہے؟ اس پر آج کے اردو دانوں کو ضرور روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہم نے تو ساری دنیا میں جہاں بھی دیکھا، نئے دور کے آنے سے زبان کو تنزلی کا شکار ہوتے ہی دیکھا۔ آج سے پچاس سال پہلے کے ٹی وی یا ریڈیو کی زبان سن لیں، اور ”نئی کروٹ“ کے بعد کے ٹی وی یا ریڈیو کی زبان ملاحظہ فرما لیں۔ قدیم عربی، انگریزی، فارسی یا اردو ہی کے ادب کی زبان دیکھ لیں، اور کروٹوں کے بعد کی زبان دیکھ لیں کافی ہے۔

”فیضؔ ایک نظریے کے تحت شعر کہتے تھے اور میری ناقص رائے میں ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ سیاسی اور صحافیانہ ہے، کیونکہ ان کا تعلق سیاسی نظریے سے بھی تھا اور صحافت کے ساتھ اس طرح کہ وہ ایک عرصے تک پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ یہی صورت حال ایک اور نظریاتی شاعر احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی؛ حالانکہ شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رکن یا اخبار کا تجزیہ نگار نہیں ہوتا، لیکن فیضؔ نے کم و بیش یہ دونوں کام کیے؛ چنانچہ ان کی شاعری کا بہت تھوڑا حصہ ایسا رہ جاتا ہے، جو خالص شاعری کی ذیل میں آتا ہے اور جس پر ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے، لیکن سوال صرف تناسب کا ہے، جبکہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے اور فیضؔ کمیونسٹ پارٹی کے بھی باقاعدہ رکن تھے اور لینن پرائز انہیں ان کے نظریے کی بنیاد پر دیا گیا، محض شاعری پر نہیں۔“

اس جدیدیت کے پرستاروں میں ایک بات بہرحال مشترک ہے جو کہ انہوں نے کہیں سے سیکھ لی ہے کہ اگر ان کی بات کسی کو سمجھ میں آسانی سے آ جائے، اور بہت سی صورتوں میں یوں کہیں کہ سمجھ میں آ جائے تو ان کی بات شاید چھوٹی ہو جائے گی، اس لیے یہ لوگ بات اس طرح سے کرتے پائے جاتے ہیں کہ بات کا سرا پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب یہی بات دیکھ لیجئے؛ کہ ایک شاعر کو اس لیے شاعر نہ مانا جائے کہ وہ کسی تنظیم کا رُکن ہے، یا وہ اخبار کا چیف ایڈیٹر رہا ہے؟ کیا فیضؔ کسی اخبار کا کوئی ماڑا موٹا کالم نگار ہوتا تو ٹھیک تھا؟

تحریر کا یہ حصہ شدید جذباتی سا ہو کر لکھا گیا ہے، بے ربطی میں ساری تحریر کو مات دے رہا ہے۔ کبھی کوئی ذکر آ جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ اندر ہی احمد ندیم قاسمی کو بھی رگڑا لگا دیا۔ ویسے ان کے حساب سے تو دنیا کا عظیم ترین آرٹسٹ پابلو پکاسو بھی آرٹسٹ نہیں ہے، وہ بھی کمیونسٹ پارٹی کا رُکن تھا۔ اور تقریباً تمام بڑے شعرا، ادیب اور آرٹسٹ یہ کچھ نہیں رہیں گے، جن میں شیخ سعدی جنہوں نے ”در سیرت پادشاھان“ لکھی، شیکسپیئر جس کا ہر بڑا ڈرامہ سیاسی تھا، تاریخی ڈراموں کو چھوڑ بھی دیں تو بھی ہیملٹ، میکبتھ، انطنی اور قلوپطرہ، جولیس سیزر اور کنگ لیئر میں سے کون سا ڈرامہ سیاسی نہیں تھا؟ سوفوکلیز کے ڈرامے غیر سیاسی تھے، یا ایسکلس کے؟ یوری پیڈیز کے ڈرامے غیر سیاسی تھے؟

یہ کہ ”شاعر صحافی نہیں ہو سکتا“، سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں کہ شاعر کا پیشہ کون سا ہو سکتا ہے، نہ کبھی پڑھا نہ سُنا۔ دوسرے یہ کہ ”شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رُکن نہیں ہوتا“ والا دعویٰ تو فیضؔ کو دیکھ کر ہی جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہ صاحبِ تحریر فیضؔ کو شاعر ماننے سے ہی انکاری ہیں؟ لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر یہ صاحب دوبارہ سے وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ جو انہوں نے شروع میں لکھا ہے کہ وہ فیض صاحب کے مداح ہیں، تو اس مداحی کو ہم لوگ کس کھاتے میں لکھیں؟

خالص شاعری سے کیا مراد ہے؟ جس میں سوچ نہ ہو؟ یا شاعر کی سیلف نہ ہو؟ یا اس میں کسی بھی قسم کی ادبی سچائی نہ ہو؟ یا اس کا گردوپیش کی زندگی سے، یا اس کے مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو؟

صاحب تحریر نے جدیدیت کے بہت بڑے دلدادے ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن مزا تو تب ہے کہ عمل میں بھی جدیدیت نظر آئے۔ مختصر یہ کہ جدید دور میں ہر لحاظ سے ادب کی سب سے بڑی صنف ناول مانی جاتی ہے۔ جس کو بورژوا ایپک (رزمیہ) کہا جاتا ہے۔ قدیم ایپک کو دیکھیں تو اس کے موضوعات ایک ہیرو کی زندگی کے گرد گھومتے تھے جو کہ پُراسرار قوتوں (حقیقت میں فطرت) سے نبرد آزما ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج کی ایپک یعنی ناول کو دیکھیں تو وہ مڈل کلاس کے کسی نوجوان کا سماج کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے متعلق ہوتا ہے۔ یعنی آپ گُل و بلبل، عارض و رخسار، خال و خد والی جس شاعری کے کرنے کا فیضؔ صاحب کی وفات کے بعد ان کو حکم صادر فرما رہے ہیں، اس کا دور ہی گزر چکا ہے۔ آسکر وائلڈ نے ”گُل و بلبل“ لکھی تو ہے، لیکن آپ کے حکم کیے گئے ”فن برائے فن“ کا سب سے بڑا نقیب ہونے کے باوجود اس کا یہ شاہکار آج کے دور کے مسائل پر ہے، نظریاتی ہے، سیاسی ہے، ساٹائر (طنزیہ) ہے۔ اس کے دیگر کاموں میں بھی اس کا ”یہ والا“ نظریہ کہیں نظر نہیں آتا۔

اقبال کے بعد اس کے رنگ میں کوئی شاعری نہیں کر سکا۔ کیوں کہ اقبال جیسا عالم اور پڑھا لکھا شاعر ان میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اقبال کے بعد اگر اردو زبان کو کوئی ایسا شاعر ملا ہے، جس کی عالمی ادب پر اور اردو کلاسیک پر گہری نظر ہو تو بلاشبہ وہ فیضؔ ہی تھے۔

شروع ہی سے اعلیٰ تعقل کے حامل لوگ زمانے کو بھانپ لیتے رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مافیہا مسلسل مبدل پذیر ہے، یہ کسی کے روکے نہیں رکتا۔ تبدیلی ہمارے گردا گرد جاری و ساری ہے۔ یہ رکتی نہیں۔ تبدیل ہوتا مافیہا پہلے پہل تو محض باریک بین لوگوں کو نظر آتا ہے، اس کے بعد اس کا دباؤ شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بنتر کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے مطابق ہو جائے، تبدیل ہو جائے۔ لیکن بنتر رکے رہنے پر، قائم رہنے پر یا ٹھہرے رہنے پر زور لگاتی ہے۔ بالآخر ایک ایسی جگہ آتی ہے، جہاں بنتر کو تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ یہ فرق واضح ہوتا ہے۔ اس کے درمیان میں کیفیتی رخنہ ہوتا ہے، اہل نظر اس کو تعقل سے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ محض منہ ماری نہیں ہے، اس کو دنیا کی ہر زبان میں دیکھا جا سکتا ہے، انگریزی میں صرف شیکسپیئر کو دیکھیں تو بُعد ہیگل اور مارکس سے پہلے اس کے ہاں نظر آتا ہے۔ جس کو ہم ہیملٹ، میکبتھ، کنگ لیئر، مرچنٹ آف وینس یا ٹمن آف ایتھنز میں دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اردو میں پرانے مافیہا کی تبدیلی کو محسوس کرتا رتن ناتھ سرشارؔ بٹیر لڑاتے نوابوں کا ٹھٹھہ اڑا رہا ہے۔ منشی محمد حسین جاہؔ طلسم ہوش ربا میں ایسے شہر کا ذکر کر رہا ہے، جس کا نام ہی شہرِ ناپُرساں ہے، جہاں جس کا جو جی چاہے کرتا ہے۔ اگر کوئی چوراہے میں چارپائی ڈال کر دن دیہاڑے سو گیا ہے، تو باقی لوگ اس سے بچ کر گزر رہے ہیں، اس کو اٹھاتا کوئی نہیں۔ مرزا ظاہر دار بیگ ایک مڈل کلاس کے مغائرت زدہ نوجوان کا کردار ہے، جو کہ اپنے ظاہر اور ماہیت میں بدلتے مافیہا کو دکھا رہا ہے۔ بے شمار مثالیں صرف اردو ادب سے دی جا سکتی ہیں۔ شاعری میں تو بدلتا مافیہا صاف نظر آ جاتا ہے، کیوں کہ بات ہی مختصر کی گئی ہوتی ہے۔ اس طرح ہم جب غالبؔ، حالیؔ اور اقبالؔ ہی کی شاعری کو سامنے رکھیں تو ہمیں مافیہا کے ساتھ ساتھ بنتر تبدیل ہوتی واضح نظر آ جاتی ہے۔

فیضؔ کی بُنتر پرانی ہے، لیکن مافیہا نیا ہے۔ اصل میں مافیہا ہمہ وقت ”بننے“ کے عمل میں رہتا ہے، یعنی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بُنتر تبدیلی کے خلاف مزاحم رہتی ہے، لیکن اس کے اندر دھیرے دھیرے چھوٹی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں، جن کو ہم کمیتی یا مقداری تبدیلیاں کہتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے، جب پہلا یکسر مٹ جاتا ہے، اور نیا آ جاتا ہے، ”آرام سے، ورنہ زبردستی سے“ ادب میں تب کوئی پرانا لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو مضحکہ خیز یا پھکڑ بن جاتا ہے، جیسے آج کوئی مولوی نذیر احمد یا سجاد حیدر یلدرم کی زبان لکھنا شروع کر دے، وغیرہ۔

فیض اس بات کو پہچان رہا ہے، کہ تبدیلی کانٹینٹ میں آئی ہے، فارم کو زبردستی تبدیل کرنا، جیسے ولگر شعرا نے ہیئت میں تجربوں کے نام پر کیا ہے، ضروری نہیں تھا۔ تو اس نے جانتے بوجھتے ہوئے ”ہیئت میں تجربے“ کرنے کی بجائے وہ کام کیا جس کا تقاضا سماج کی اور مافیہا کی لازمیت کرتی تھی۔

لیکن اس کے باوجود کیا ہم کسی فنکار کو، شاعر یا ادیب کو یہ مجبور کر سکتے ہیں، کہ وہ ہمارے بتائے اصولوں پر شاعری وغیرہ کرے؟ کیا یہ اس کی صوابدید یا اس کی فنکاری نہیں، کہ اس کا فن اس سے جو کروائے وہ کرے؟ اس کا دل چاہے تو پرانے مافیہا کی دُم سے لٹک کر ہلارے لیتا رہے، یا پھر اس کو ترک کر کے نئے مافیہا کو، نئی زندگی کو دیکھے، اور اس کے مطابق فن تشکیل کرے۔ اپنے اظہار کے لیے اسی کو معلوم ہے، کہ کون سی بُنتر بہتر ہے۔ بنتر میں خاصی لچک موجود ہے، جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، کہ یہ خود کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ فیضؔ جیسا شاعر جس کے پاس نئے مافیہا کو دیکھتے ہوئے کہنے کو کچھ تھا، اس نے ”ہیئت میں تجربے“کرنا شاید وقت کا ضیاع سمجھا ہو گا۔ بلکہ اس کو علم ہو گا، کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے، جن کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ شاعری میں کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی فقرہ ایسا نہیں، جو کہ خالص فقرہ ہو۔ جس کا معنی اس فقرے سے باہر کچھ اور نہ ہو۔ اگر ایسا ہو، تو اس کو فقرہ نہیں کہا جاتا الفاظ کا اکٹھ ہی کہا جائے گا۔ تو شاعری میں کچھ تو بہرحال کہا جائے گا، خواہ اس کا تعلق انسان کے ساتھ دوستی کا ہو، دشمنی کا، یا پھر لاتعلقی کا۔ لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں، اس کا ان تین میں سے کوئی تعلق تو ہوتا ہی ہے۔ کوئی بات ایسی نہیں ہو سکتی جس کا تعلق انسان کے ساتھ نہ ہو۔ انسان ہمارے ارد گرد مر رہے ہوں، بلک رہے ہوں، پِس رہے ہوں، وہاں انسان سے لاتعلقی کا اظہار، محض لاتعلقی نہیں رہے گا، بلکہ انسان دشمنی ہی شمار ہو گا۔

فیضؔ کو یہ نظر آ رہا تھا، اس نے ہیئتوں پر تجربے کرنے پر مغز ماری کرنے کی بجائے کہہ ڈالنے کو ترجیح دی۔ ہم جانتے ہیں، کہ جب ہمارے پاس کوئی خیال ہوتا ہے، تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس کو جلدی سے ظاہر کر دیں، ورنہ وہ بھلایا جا سکتا ہے۔ اس طرح پرانی بنتریں جدید مافیہا کے اظہار کا ذریعہ بھی بنتی رہیں۔ فیضؔ نے غزل میں نئے مافیہا کا اظہار کیا اور اپنی بات کہی۔ ”نالہ پابند نے نہیں ہے“۔

اس بارے پریم چند دو ٹوک بات کرتے ہیں:

”ہمارا ادبی مذاق بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے۔ دل بہلاؤ کے سوا اس کا کچھ اور بھی مقصد ہے۔ وہ اب محض عشق وعاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے، ان کا محاکمہ کرتا ہے اور ان کو حل کرتا ہے۔ وہ اب تحریک یا ایہام کے لئے حیرت انگیز واقعات تلاش نہیں کرتا یا قافیہ کے الفاظ کی طرف نہیں جاتا بلکہ اس کو ان مسائل سے دلچسپی ہے جن سے سوسائٹی کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔“

ہمارا یہ جدید سماج اس پرانے جاگیردارنہ سماج سے مختلف ہے، جس میں چھپ چھپ کر محبت ہوا کرتی تھی اور کافی سارا ادب ہجر و فراق کے گرد ہی گھوما کرتا تھا، اگر آپ جدیدیت کے علمبردار ہیں، تو باتوں کی حد سے نکل کر عملی میدان میں جدید سرمایہ دارانہ سماج کے جوہر، استحصال تک پہنچیں، اور اس پر لکھیں، خواہ اس کو جائز ہی قرار دے دیں، جو کہ ویسے بھی آپ ڈھکے چھُپے طریق سے کر ہی رہے ہیں۔
آگے آپ نے لکھ دیا ہے کہ ”ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے“، ہوتا ہے، تو کر لیں، ورنہ کسی اور کو پڑھ لیں، فیضؔ نے آپ کے گزارے کے لیے تو لکھا نہیں ہے، ایسی باتیں تو بہتر ہوتا آپ تب لکھتے، جب فیض صاحب زندہ تھے، کہ وہ آپ جیسوں کے ”گزارے کے لیے“ بھی کچھ لکھ دیتے۔ لیکن سُنا ہے کہ ان کی ”اُس طرح کی“ شاعری تھی تو ضرور مگر چھپوائی نہیں گئی۔

باقی یہ کہ ”مدرسانہ طریق کار“ انتہا سے زیادہ لچک دار ہے۔ اس میں ہر فلسفے اور ہر نظریے کا کشتہ مار کے طلبہ کو پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس ہضم کی گئی غذا کے اثرات ہومیو پیتھک ادویہ جیسے ہیں۔ بندہ دوائی لے رہا ہے، مطمئن ہے، اثر ”Placebo“ ہے۔ ہر چیز کا سیدھا اور الٹا جائزہ لے کر طلبہ کو ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ ”Aporia“ کے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ اسی طریق کار نے حکمران طبقے کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔ آج ہم اردو بولنے والی ساری پڑھی لکھی آبادی کو دیکھیں، تو ہمیں شاعروں کے ہجوم مشاعرے پڑھتے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے و سمیٹتے ہر سوُ دکھتے ہیں، لیکن شاعری۔۔۔ کہیں نہیں ہے۔ نہ اِدھر نہ اُدھر۔ انڈیا میں احتجاج ہو رہے ہیں، کروڑہا بندہ سڑک پر ہے، لیکن شاعری وہی ساحرؔ، حبیب جالبؔ اور فیضؔ کی پڑھی جا رہی ہے۔ کیا یہ صرف اس لیے پڑھی جا رہی ہے، کہ ”گویوں کے ذریعے“ ان تک پہنچی؟

اس مدرسانہ طریقِ کار کے ”کشتہ ماروں“ نے حلقہ اربابِ ذوق اور انجمن ’ترقی پسند‘ مصنفین اور اس طرح کے دیگر حلقوں وغیرہ کی صدارتوں وغیرہ پر ہر ہفتے براجمان ہونا ہوتا ہے، اور یہ لوگ نوجوانوں کے ذہنوں میں پنپنے والے واقعتاً جدید (مافیہا سے متعلق) خیالات کو انتہائی ڈھٹائی سے رد کرتے، اپنے مستقبل کے دشمنوں کے سر کچلتے پائے جاتے ہیں۔ نوجوان شعرا اور ادباء کو طوطوں کی طرح رٹی ہوئی باتیں رٹواتے ہیں، کہ ”اس طرح سے ’خالص ادب‘ اور ’خالص شاعری‘ کو ’تخلیق‘ کرنا“چاہیے‘، جیسے کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ وہ نوجوان جس محفل میں اپنا کلام یا اپنی نثر لے کر پہنچتے ہیں، آگے خرانٹ کھوسٹ احبابِ کُہن ان میں موجود بغاوت کچلنے کو، بیخ کنی کو موجود ہیں۔ نوجوانوں کی دل شکنی ہر جگہ سے کی جاتی ہے، جیسے نوسر بازوں کی کہانی میں ہر نوسرباز بکرے کو کتا بتاتا ہے، بالکل ویسے ہی نئے خیالات کے حامل شاعر کو ہر جگہ پھٹکار سے، دھتکار سے۔۔۔ لیکن پیار سے لوہے کی ٹوپی پہنا کر ”چوہا“ بنا کر معاشرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

میں نے انجمن کے ایک اجلاس میں ایک نوجوان کا سٹیفن ہاکنگ پر لیکچر سنا۔ لیکچر کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ، ”آپ کو کیسا لگا میرا لیکچر؟“ تو میں نے سچ بات بتائی کہ باقی چیزیں تو میں نے پڑھی ہوئی تھیں، مشہور ہیں، لیکن تمہارے لیکچر کے فلاں حصے کے فلاں جملے بہت شاندار تھے۔ واقعی مزا آیا۔ اس نے کہا۔ ہاں واقعی وہ جملے میرے ہی تھے۔ تو میں نے پوچھا کہ تم نے اس طرح اپنا لیکچر کیوں تیار نہیں کیا؟ تو آج کئی سال گزر جانے کے بعد بھی اس کا جملہ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح لگتا ہے، اس نے کہا تھا کہ مجھے انجمن کے اصحاب کی جانب سے یہ بات سختی سے سمجھائی گئی تھی کہ تم نے اپنے پاس سے کچھ نہیں بولنا۔ اس سے ”آبجیکٹیویٹی“، جو سائنس کا خاصہ ہے، متاثر ہوتی ہے۔

نوجوان لکھنے والوں کی کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے، تمام یونیورسٹیوں کی چیئرز پر انہی کا قبضہ ہے، یہ ”نظریے“کے پیچھے ڈانگ لے کر بھاگنے والے، تھوک کے حساب سے”نئے“ نظریات باہر کے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ دوڑ لگی ہے، اس بات کی کہ فلاں ”نئی“ تھیوری اردو میں پہلے میں نے متعارف کروائی ہے۔ وہ تھیوری جھوٹ پر مبنی ہے، یا سچ پر، اس سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ وہ وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئی یا وہاں کے انسان دوست نظریہ دانوں نے اس ”نئی تھیوری“ کا نیا نقاب اتار کر اس کو دقیانوسی انسان دشمن نظریہ ثابت کر دیا، اس کی ان کو کوئی خبر نہیں۔ لیکن ”اب اس طرح کا لکھنا شروع کر دو“ کے فرمان مسلسل جاری ہوتے ہیں۔

کسی کا مقالہ ہی پاس نہیں کیا جاتا، ماسوائے یہ کہ ان کی کسی پسندیدہ شخصیت، کسی دوست پر ہو، کسی رشتے دار پر ہو، خود ان پر یا پھر ان کے ابے پر ہو۔ ایک خاتون کو ایم فل اردو کے مقالے میں ترقی پسند تحریک کے کسی خاص نکتہ نظر پر تھیسس نہیں کرنے دیا گیا، اس کو حکم صادر ہوا کہ تُم ایسے کرو کہ فلاں سوشلسٹ شاعر کی نعتیہ شاعری پر کام کر لو اگر ترقی پسندی پر ہی کام کرنا ہے تو۔

غرض یہ کہ یونیورسٹیوں کے مدرسانہ کاموں میں سے بھی مسلسل”خطرناک“، ”زہریلے“ اور اور سوچ کو متحرک کرنے والے عنصر سے مسلسل پاک کرنے کا کام کیا جاتا ہے، حلقوں اور انجمنوں میں بھی، کتابوں ادبی جریدوں میں بھی اور اخباروں میں بھی۔ واقعتاً نئی سوچ کو سامنے لانے والے نوجوان کی ہر جگہ اس قدر چھترول کی جاتی ہے، کہ وہ اپنی تحریر کو بار بار نظر ثانی اور تبدیل کرتا کرتا اپنا ذہن ہی ویسا بنا لیتا ہے، کہ اسی طرح کا لکھے جس کو یہ والے تمام بابے ”پاس“ کر دیں۔

اور حیرت گُم ہو جاتی ہے، ان اجلاسوں میں یہ دیکھ کر کہ جس نوجوان کی تحریر میں کچھ بھی نہ ہو، اس کی پذیرائی دیکھ کر۔ اس مظہر کو میں کیا بیان کروں، اپنے گرد تخلیق ہونے والے آج کے ادب پارے پڑھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ گو مجھے آج کے ادب سے عدم آگاہ باور کیا جائے گا، کہ”بہت شان والا ادب لکھا جا رہا ہے، اس کو علم ہی نہیں۔“ لیکن ہے تو کہاں ہے؟ ”وہ جی اب ادب کی قدر ہی نہیں رہی۔ ناقدرے لوگ ہیں، عوام۔ جاہل ہیں، پڑھتے نہیں۔“ عوام نے تو غالب سے لے کر جالب تک ہر اس شاعر کو سراہا ہے، جس کے پاس ان کے لیے کہنے کو کچھ تھا، جب کہ یہ دونوں شعرا اپنے نام پر تقریبات، مشاعرے، تقاریب رُونمائیوں کے خرچے اٹھا پانے کے قابل نہیں تھے، نہ ہی اپنی کتابیں چھپوا کر مفت بانٹے کے وسائل رکھتے تھے۔

آگے چلتے ہوئے اب اسی پیرے کو لے لیں، اس میں بعض متضاد (صوری منطق کے لحاظ سے، نہ کہ جدلیاتی اعتبار سے) باتیں انتہائی ٹیوشنسٹ اور مدرسانہ انداز میں کر دی گئی ہیں۔ جیسے ”یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے، لیکن سوال صرف تناسب کا ہے“ اب کوئی اعتراض کر ہی نہیں سکتا کہ آپ نے پابند کر دیا ہے، وہ کہیں گے ہم نے نہیں کیا۔ ”تناسب“ کیسے معلوم ہو؟ اب یہ تناسب ایک مصرعے میں، ایک فقرے میں قائم رکھنا ہے، ایک فن پارے(نظم، غزل، افسانے وغیرہ) میں یا پھر اپنے سارے کام میں؟ کون طے کرے گا؟ اگر تو سارے کام میں یہ والا حکمیہ”تناسب“ قائم کرنا ہے، اور شاعر پہلے ”وہ والی“ شاعری کر رہا ہے، کہ”خالص والی“ بعد میں کرنے پر اٹھا رکھی، اور وہ مر گیا، تو کیا ہو گا؟ اور یہ”تناسب“ طے کرنے والے مدرس، یہ تناسب کیسے نکالتے ہیں، کیا گُر ہے، کیا مدرسانہ طریق کے کسی مدرسے میں ہمیں یہ بھی کوئی بتائے گا؟

”جبکہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے“

ویسے اس جملے پر بھی حیرت ہے (”جبکہ“ لفظ یہاں عجیب طرح سے ٹھونک دیا گیا ہے، گویا کوئی منطقی بات ہونے لگی تھی)، کہ کون سا شاعر ہو گا، جو اپنا قلم اٹھانے سے پہلے سوچتا نہیں، اور کون سا شاعر ہے جو کہ اپنی تخلیق خلق کرنے سے پہلے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہوتا؟ صرف ایک مثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کر دیتا ہوں۔ ایک شاعر ایک نتیجے پر پہنچ کر ایک مصرعہ کہتا ہے، دوسرا مصرعہ ہونے پر پہلے والے خیال کی تنسیخ ہو گئی شاعر کے اندر، یہ مانتے ہیں کہ ممکن ہے، ہوتا ہے، لیکن جب اس نے دوسرا مصرعہ تشکیل کیا، تو اس کا دوسرے والا نتیجہ تو ہر حال میں، مصرعے کی تخلیق سے پہلے تشکیل پا چکا تھا۔ اس بات کا رد افلاطون کی”آئن“میں کی گئی اسی بات سے کیا جا سکتا ہے، جس کو استاد ارسطو نے بھی ذکر کر کے اس پر بات کرنا پسند نہ کیا، کہ ”شاعری شاید کسی پاگل پن کی بیماری سے سرزد ہوتی ہے، یا پھر یہ خدا کی جانب سے کوئی تحفہ ہوتا ہے“، لیکن یاد رہے کہ یہ جملہ تحسین آمیز نہیں تھا، شاعروں کی احمقانہ باتیں سن کر سقراطؔ نے گِلہ کیا تھا، کہ شعروں میں باتیں تو عقلمندی کی کرتے ہیں، لیکن جانتے نہیں ہیں، کہ انہوں نے کیا بات کی ہے، لگتا ہے کہ یہ کسی پاگل پن کا نتیجہ ہے، یا کوئی تحفہ من جانب خدا، جو ان پر نازل ہوا۔

”فیضؔ نے سیاسی نظریے ہی کی بنیاد پر گُل و بلبل، باغ و باغباں کے معنی بھی تبدیل کر دیئے، اس لئے ہمیں غالبؔ کے زندان اور فیضؔ کے زندان و قفس میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ان استعاروں سے فیضؔ نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق کام لیا۔“

”سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق کام لینا“ غلط کیسے ہے؟ کیا اقبال کی شاعری اور اس کے استعارے ”سماج سدھار“ قسم کے نظریات سے اپنا دامن بچا پائے تھے؟ اگر ہم صرف شاہین کو ہی دیکھیں تو یہ ایسکلسؔ کے ’آگامیمنان‘ کے قاتل پرندے کا استعارہ ہے، جس کو اقبال نے اعلیٰ حوصلگی اور بلند نگاہی وغیرہ کی علامت کے بطور برتتے ہوئے اس کے ”معنی تبدیل کر دیے“۔ نئے استعارے، یا پرانے استعاروں کے”معنی تبدیل کر دینا“ ہی تو اصل کام ہے۔ غالبؔ نے بھی خضرؔ، سکندرؔ، مسیحاؔ، کوہکنؔ، وغیرہ جیسے پرانے استعارے اگر برتے ہیں تو ان کے معنی پرانوں سے یکسر مختلف ہیں۔

”ڈاکٹر ابرار احمد لکھتے ہیں ”باقی سبھی اہم شاعر ہم تک گائیکی کے ذریعے پہنچے، جن میں ناصر ؔکاظمی، منیرؔ نیازی اور فیضؔ و فرازؔ سبھی شامل ہیں، لیکن ظفرؔ اقبال واحد شاعر ہے، جو ہم تک کتاب کے ذریعے پہنچا“۔ یہ بات اگر میری تعریف میں ہے تو اسے نقل کرنے پر معذرت چاہتا ہوں اور اگر میں لوگوں تک گائیکی کے ذریعے نہیں پہنچا تو یہ میری نالائقی ہو سکتی ہے، جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔“

اس بات کے کرنے کا مقصد؟ شاید انہوں نے پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کو لے کر”ہم“ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اس کو ایسے ہی رہنے دیتے ہیں۔ البتہ صرف لفظ ”واحد“ پر اعتراض درج کر دینا بنتا ہے کیوں کہ ہر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹروں کے مقالات کے ڈھیر پڑے سڑ رہے ہیں جو سارے کے سارے انہی شاعروں پر ہیں جو ان ڈاکٹر صاحبان تک ”کتاب کے ذریعے پہنچے ہیں“۔ جہاں شاعر لوگ اتنا خرچہ کر کے کتابیں چھپوا کر مفت بانٹتے ہیں، خود پر مقالے لکھواتے ہیں، ان کو چاہئے، کہ اپنا کلام کسی سے گوا بھی لیں۔ نصیحت بظاہر فضول لگے گی، لیکن غور کریں گے تو بڑے ہی کام کی ہے۔

”فیضؔ کے بارے میں بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے رومان اور مزاحمت کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے، لیکن فیضؔ نے جس مجبور و مقہور طبقے کیلئے شاعری کی ہے، فیض ؔکا خود اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ وہ ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔“

اس فقرے کا پہلا حصہ ایک بات کو تسلیم کر رہا ہے، جس کا اظہار ”بجا طور پر“ کے الفاظ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد”لیکن“ کا لفظ آ جاتا ہے، جو کہ پہلے کی گئی بات کو رد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آگے ہم دیکھتے ہیں، کہ ”رومان اور مزاحمت“ کے ”اعلیٰ نمونے کی پیش کاری“ کو گھٹیا ثابت کرنے کے لیے فیضؔ کی شاعری میں سے گھٹیا پن کی کوئی مثال دینے کی بجائے، یا فیضؔ کی شاعری کے اثرات کے برے ہونے کی بات کرنے کی بجائے، ایک عام منطقی مغالطے دلیلِ شخصی (ad hominem) کا سہارا لیا گیا ہے، جس میں مخالف کی بات سے دھیان ہٹا کر اس کی ذات پر بات شروع کر دی جایا کرتی ہے۔ یعنی کسی کے حق میں لکھنے کے لیے انسان کا تعلق اسی کے قبیلے سے ہونا ضروری ہے۔ محنت کش لوگ عام طور پر روٹی کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں، کہ اگلا کھانا کیسے ملے گا۔ اس چکر میں پھنس جانے والا ہی جان سکتا ہے، کہ تمام کے تمام شاعریاں اور فلسفے ایک دن کی بھوک کی مار ہیں۔ اس طرح محنت کش طبقے کے نظریہ دان دنیا میں کہیں بھی، اور کبھی بھی ان کے اپنے طبقے سے نہیں ابھرے، شاید چند مستثنیات کہیں سے مل جائیں۔

محنت کش طبقے کے نظریہ دان واضح طور پر ان کے مخالف طبقے میں سے ہی برآمد ہوا کرتے ہیں، جو کہ غور و فکر سے، یا شرم سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے رہے ہیں کہ استحصال ایک غیرانسانی مظہر ہے۔ اس بات کو ساری تاریخ میں کہیں سے بھی شروع کر لیں، یہی نتیجہ ملے گا۔ گوتم بدھ سے شروع کر لیں، یا ہیراکلیتسؔ و افلاطون سے۔

فیضؔ کی مثال لے کر یہ شیکسپیئر، بالزاک، ٹالسٹائی، تھامس مان وغیرہ سے لے کر مارکس، اینگلس اور لینن وغیرہ سب کو رد کر دینے کے چکر میں ہیں۔ کیوں کہ ان میں سے کسی کا بھی ”خود اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیوں کہ وہ ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے“۔

ویسے میڈم نورجہاں نے بھی پاک فوج کے لیے ترانے گائے تھے، حالاں کہ ان کا بھی فوج سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ عجیب نہیں لگے گا کہ کل کو کوئی بھٹہ مزدوروں کے لیے شاعری کرے تو اس سے بھٹہ مزدور ہونے کا تقاضہ کیا جائے، جرمنی جاپان میں بہت سے لوگ جانوروں کے حقوق کے لیے انجمنیں بنا کر کام کرتے ہیں۔ اور میں نے خود محسوس کیا ہے، کہ وہ سب تو انسان ہیں۔ اور کوئی شاہین پر شاعری کرنے والے کے متعلق کہے کہ وہ تو اڑنا ہی نہیں جانتا تھا۔

”اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فیضؔ نے جس طبقے کیلئے اتنی زور دار شاعری کی، کیا وہ شاعری اس طبقے تک پہنچی؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس سے بھی وہی ایلیٹ طبقہ لطف اندوز ہوتا ہے، جو فیضؔ کا اپنا طبقہ تھا؛ چنانچہ فیض ؔکا یہ سارا نظریاتی کلام اس طبقے کیلئے محض ایک ذہنی عیاشی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی کتابیں ان حضرات نے اپنے شیلف سجانے کیلئے رکھی ہوتی ہیں۔ پھر جو ہر سال فیضؔ میلہ منایا جاتا ہے، اس کے کرتا دھرتا اور شرکاء بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کوئی یہ تردد نہیں کرتا کہ اس جشن میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا جائے، جن کیلئے فیضؔ نے شاعری کے انبار لگا رکھے ہیں۔“

”سب سے بڑے سوال“ کا چھوٹا سا جواب ہے، ”جی ہاں پہنچی ہے“۔ خوب پہنچی ہے۔ انڈیا میں غربت، مہنگائی، بھک مری اور بے روزگاری کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں فیضؔ کی شاعری ہی پڑھی گئی ہے، بینروں پر سجی ہے، دیکھنے والوں کو نظر آتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ فیضؔ کی کتابوں کے، بشمول نسخہ ہائے وفا کے کتنے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے، کہ ان کی کثیر تعداد کام کرنے والے، نوکری پیشہ لوگ ہی خریدتے ہیں۔”الیٹ“ کلاس کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے پاکستان میں کہ ساری کتب وہی خرید لے۔

اب جب کہ آپ نے فرما دیا کہ ایلیٹ طبقہ ہی”فیض میلے“ کا کرتا دھرتا ہے، تو پھر یہ کہنا تو مخول ہی ہو گیا کہ ایلیٹ طبقہ محروم و مقہور طبقے کو اپنے والے جشن میں شامل کر لے؟

یہ بات درست ہے کہ حکمران طبقہ محنت کش کی ہر ملکیت پر قابض ہوتا چلا جا رہا ہے، یہاں تک کہ فیضؔ میلے کو عوام سے چھین لیا گیا ہے، اور جالبؔ کے شعر شہباز شریف پڑھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کے خلاف انقلاب کی ضرورت ہے، انہی لوگوں نے انقلاب اور تبدیلی کے الفاظ کو بھی عوام سے چھین کر بے عزت کیا ہے۔

بلکہ یہ تو عوام کے سوشلزم اور کمیونزم کو بھی ”کلاسیک“ قرار دے کر اپنا گھڑا ہوا”سوشلزم“ اور”کمیونزم“ بھی عوام میں اتارنے کو ہیں۔ جس میں سوشلزم اور سرمایہ داری کے مابین مخاصمت ختم کر دی جائے گی اور سرمایہ داروں کے دل میں محنت کش کے متعلق درد بھر جائے گا۔ اور وہ اس کو مزدوری کے ساتھ سال میں ایک دو بار خیرات بھی دے دیا کرے گا۔

”میں نے ایک بار تجویز پیش کی تھی کہ فیضؔ کے کلام میں سے انتخاب کر کے اس کا پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کروا کر پیپر بیک کتابوں پر پمفلٹس کی شکل میں خصوصاً دیہات میں رہنے والے ان لوگوں تک پہنچایا جائے، جسے پڑھ کر ان میں تحریک پیدا ہو کہ وہ خود بھی اپنی حالت کو تبدیل کرنے کے بارے سوچ بچار کریں، کیونکہ وہ اس بات سے صریحاً بے خبر ہیں کہ فیضؔ نے ان کے بارے میں کیاکچھ لکھ رکھا ہے، جبکہ فی الحال تو فیضؔ کے انقلابی کلام کا صریحاً غلط استعمال ہی ہو رہا ہے۔ مطلب یہ کام اچھا ہو گا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیضؔ، صوفی تبسم سے اصلاح لیا کرتے تھے اور جب صوفی صاحب کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور شاید اسی لئے فیضؔ کے آخری دنوں کے کلام میں وزن وغیرہ کی فنی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اوپر مجیدؔ امجد، منیرؔ نیازی اور ناصرؔ کاظمی کا ذکر آیا ہے، جنہوں نے کسی سیاسی یا غیر سیاسی نظریے کا سہارا نہیں لیا، جبکہ مزاحمت اور مایوسی کے آثار ان کے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کے ہاں بھی ایسے جذبات دستیاب ہیں، لیکن ایک حُسن تناسب کے ساتھ؛ البتہ حبیبؔ جالب کی شاعری، وہ جیسی بھی تھی، اُن طبقات تک کسی حد تک پہنچی ضرور، جن کیلئے تخلیق کی گئی تھی، جبکہ فیضؔ کی ایسی شاعری مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی۔ ”سر عام“ نامی میرے مجموعے میں صرف اسی طرح کی غزلیں ہیں اور جن کی تحسین بھی ہوئی، لیکن کتاب کے فلیپ میں، میں نے اسے اپنی کم تر درجے کی شاعری قرار دیا ہے۔“

یہاں فاضل کالم نگار صاحب نے ”مزاحمت اور مایوسی“ کو ایک ساتھ استعمال کر کے یہ تاثر دیا ہے، گویا یہ الفاظ ہم معنی ہیں۔ حالاں کہ یہ دونوں الفاظ اپنی نوعیت میں متضاد ہیں۔ یا تو ایک انسان مایوس ہو سکتا ہے اور یا مزاحمت کر سکتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ بات جان بوجھ کر ان تمام شعرا کی ہتک کرنے کے لیے کی گئی ہے جنہوں نے محنت کش طبقے کے حق میں کچھ لکھا ہے۔ اس چیز کو ہم ذہانت تو نہیں کہہ سکتے، البتہ مکاری یا عیاری کہنا بالکل درست ہو گا۔

جناب کالم نگار صاحب نے خود ہی یہ بات کہہ کر کنفیوز کر کے رکھ دیاہے کہ ان کا شاعری کا ایک مکمل مجموعہ ان کی کم تر یا گھٹیا درجے کی شاعری پر مشتمل ہے، سمجھ نہیں آ رہی کہ ”کمتر“یا گھٹیا قسم کی شاعری کو چھَپا دینا قرین عقل تھا، یا کہ چھُپا دینا؟

”یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اختلاف رائے کے بغیر ادب جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں فیضؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں، اسی لئے میں نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے کہ میرے نزدیک یہ سوالات اور تحفظات موجود تھے، جو میں نے بیان کر دیئے ہیں۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں، لیکن میں اپنی بات کہنے کے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا کہ یہ میری مجبوری بھی ہے اور میں یہ کام کرتا بھی رہتا ہوں۔ ادب میں رعایتی نمبر نہیں ہوتے۔ میں کسی کو رعایتی نمبر دیتا بھی نہیں، کیونکہ میں خود کسی سے رعایتی نمبروں کا طلبگار نہیں ہوتا!“

ہم نے بھی کوشش کی ہے کہ فاضل کالم نگار کی باتوں پر ہمارے جو سوالات اور تحفظات تھے، بیان کر دیں بالکل اسی طرح سے جیسے موصوف نے اپنے اس کالم میں کیے ہیں۔ لیکن ان تمام نقائص، عیوب اور جرائم کی موجودگی میں، جو کچھ کہ صاحبِ تحریر نے گنوائے، جن میں فکر کے اتھلے پن، یک طرفہ پن، عدم فنکارانہ پن، فکری و لسانی جمود، قدامت پرستی، یکسانیت زدگی، فنی سقم یا عروضی کوتاہیاں، عدم حسن تناسب؛ ڈائیورشن، ڈائیورسٹی اور یہاں تک کہ ”خالص شاعری“ سے دوری، کے علاوہ خطرناک قسم کے وہ جرائم جن کا دنیا کے کسی بھی لکھاری میں پایا جانا ممکن ہو سکتا تھا؛ جیسے کہ لوگوں تک کلام کا کتاب کی بجائے گویوں اور قوالوں کے ذریعے پہنچانا، شاعری مشہور کروانے کے لیے نظریے کا سہارا لینا، اُس ایوارڈ کو (فن کی بجائے) نظریے کے بل پر لے اڑنا جو کہ فنکاروں کے لیے تھا، مایوسی پھیلانے کا مرتکب ہونا، صوفی تبسمؔ کے کاندھوں پر چڑھ کر شہرت کاحصول، شاعری کو سیاسی اور صحافیانہ گراوٹ کا شکار کر دینا، مخصوص نظریے کا حامل ہونا، پھر اُس نظریے سے ذاتی زندگی کا بُعد میں ہونا، متعصب ہو نا(پہلے کے گھڑے گھڑائے نتیجوں کو منظوم کر دینا)، جیسی برائیوں کا مجموعہ فیضؔ کو قرار دے دیے جانے کے بعد، موصوف کی ایسی کون سی مجبوری تھی، کون سی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ کہنا پڑا کہ: ”فیض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں“ اور ”میں فیضؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں“؟

Viewing all 24 articles
Browse latest View live